Pages

Friday 24 February 2017

چوہادان اور انسانیت

کسان اﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﺳﮯ ﮈﺑﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﺋﮯ ۔ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮐﯿﺎ ﻻﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﭼﻮﮨﮯ ﻧﮯ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺭﺍﺥ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ۔ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﭼﯿﺰ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﭼﻮﮨﮯ ﺩﺍﻥ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺟﺎﻥ ﮨﯽ ﻧﮑﻞ ﮔﺌﯽ ﻭﮦ ﺑﮭﺎﮔﺎ ﺑﮭﺎﮔﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣُﺮﻏﯽ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ " ﮐﺴﺎﻥ ﭼﻮﮨﮯ ﺩﺍﻥ ﻻﯾﺎ ﮨﮯ ” ﻣﺮﻏﯽ ﻧﮯ ﭼﻮﮨﮯ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﻣﺴﺘﺮﺩ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ “ ﯾﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﮨﮯ ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﻧﮩﯿﮟ "

ﭼﻮﮨﺎ ﺩﻭﮌﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﺑﮑﺮﯼ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ “ ﮐﺴﺎﻥ ﭼﻮﮨﮯ ﺩﺍﻥ ﻻﯾﺎ ﮨﮯ ” ﺑﮑﺮﯼ ﻧﮯ ﭼﻮﮨﮯ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ
“ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻤﺪﺭﺩﯼ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮞ ”

ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﺣﺎﻝ ﭼﻮﮨﮯ ﻧﮯ ﮔﺎﺋﮯ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺩﻭﮨﺮﺍﯾﺎ “ ﮐﺴﺎﻥ ﭼﻮﮨﮯ ﺩﺍﻥ ﻻﯾﺎ ﮨﮯ ” ۔ ﮔﺎﺋﮯ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ” ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻟﺌﮯ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﯽ ﻣﮕﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﺗﻮ ﭼﻮﮨﮯ ﺩﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﮎ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﮭﺴﺘﯽ ” ۔ﭼﻮﮨﺎ ﺑﺪ ﺩﻝ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺳﺮ ﻟﭩﮑﺎﺋﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑِﻞ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﺮ ﮔﺮ ﭘﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﺭﮨﺎ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﮐﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﭼﻮﮨﮯ ﺩﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﻨﺲ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ

ﺍﮔﻠﯽ ﺭﺍﺕ ﮐﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ
ﮐﮍﺍﮎ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺁﺋﯽ ۔ ﮐﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﮮ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮔﺌﯽ ﮐﮧ ﭼﻮﮨﺎ ﭘﮑﮍﺍ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ۔ ﺍﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﭼﯿﺰ ﻧﮯ ﮐﺎﭦ ﻟﯿﺎ ۔ ﺩﺭﺍﺻﻞ ﭼﻮﮨﮯ ﺩﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮔﺬﺭﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺳﺎﻧﭗ ﮐﯽ ﺩﻡ ﭘﮭﻨﺲ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ ۔ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﯽ ﭼﯿﺦ ﻭ ﭘﮑﺎﺭ ﺳﻦ ﮐﺮ ﮐﺴﺎﻥ ﺩﻭﮌﺍ ﺁﯾﺎ ۔ ﺻﻮﺭﺕِ ﺣﺎﻝ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻭﮦ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﺳﮯ ﭨﯿﮑﺎ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ گیا ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﯽ ﯾﺨﻨﯽ ﭘﻼﺋﯽ ﺟﺎﺋﮯ ۔

ﮐﺴﺎﻥ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺮﻏﯽﺫﺑﺢ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﯾﺨﻨﯽ ﺑﻨﺎ ﺩﯼ ۔ ﺑﯿﻮﯼ ﯾﺨﻨﯽ ﭘﯿﺘﯽ ﺭﮨﯽ ﻣﮕﺮ ﺍﺳﮯ ﮐﺌﯽ ﺩﻥ ﺑﺨﺎﺭ ﺭﮨﺎ ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻋﻼﻟﺖ ﮐﺎ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻗﺮﯾﺒﯽ ﺭﺷﺘﮧ ﺩﺍﺭ ﻣﺰﺍﺝ ﭘﺮﺳﯽﮐﯿﻠﺌﮯ ﺁﺋﮯ ۔ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮐﺴﺎﻥ ﻧﮯ ﺑﮑﺮﯼ ﺫﺑﺢ ﮐﺮ ﮈﺍﻟﯽ ۔

ﮐﭽﮫ ﺩﻥ ﺑﻌﺪ ﮐﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﻓﻮﺕ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻟﻮﮒ ﺗﺪﻓﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺁﺋﮯ ۔ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﻼﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮐﺴﺎﻥ ﻧﮯ ﮔﺎﺋﮯ ﮐﻮ ﺫﺑﺢ ﮐﯿﺎ ﭼﻮﮨﺎ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺭﺍﺥ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﺎﺋﺖ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﺭﮨﺎ.

ﯾﺎﺩ ﺭﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﮨﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﺌﮯ ۔ ﺍﺳﯽ ﻋﻤﻞ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺍﻧﺴﺎﻧﯿﺖ ﮨﮯ ۔ ﮐﻮﻥ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﻞ ﮨﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﺲ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﯼ ﮨﻮگی.

Sunday 19 February 2017

پرواز میں کوتاہی

بہت پرانی بات ہے، ایک بادشاہ کو تحفے میں کسی نے "باز" کے دو بچے نذر کئے. وہ بڑی ہی اچھی نسل کے تھے، اور بادشاہ نے کبھی اس سے پہلے اتنے شاندار باز نہیں دیکھے تھے.

بادشاہ نے ان کی دیکھ بھال کے لئے ایک تجربہ کار آدمی کو مقرر کر دیا. جب کچھ ماہ گزر گئے تو بادشاہ نے بازوں کو دیکھنے ارادہ کیا، اور اس جگہ پہنچ گیا جہاں انہیں پالا جا رہا تھا. بادشاہ نے دیکھا کہ دونوں باز کافی بڑے ہو چکے تھے اور اب وہ پہلے سے بھی شاندار لگ رہے تھے.

بادشاہ نے بازوں کی دیکھ بھال کر رہے آدمی سے کہا، "میں انھیں پرواز کرتے دیکھنا چاہتا ہوں، آپ انہیں اڑنے کا اشارہ کریں. "اس آدمی نے ایسا ہی کیا.

اشارہ ملتے ہی دونوں باز پرواز کرنے لگے، پر جہاں ایک باز آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا تھا، وہیں دوسرا، کچھ اوپر جاکر واپس اسی ڈال پر آکر بیٹھ گیا جس سے وہ اڑا تھا.

یہ دیکھ کر، بادشاہ کو کچھ عجیب لگا.

"کیا بات ہے جہاں ایک باز اتنی اچھی پرواز بھر رہا ہے وہیں یہ دوسرا باز پرواز ہی نہیں چاہ رہا؟"، بادشاہ نے سوال کیا.

"جی حضور، اس باز کے ساتھ شروع سے یہی مسئلہ ہے، وہ اس ڈال کو چھوڑتا ہی نہیں."

بادشاہ کو دونوں ہی باز عزیز تھے، اور وہ دوسرے باز کو بھی اسی طرح پرواز کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے.

اگلے دن پوری ریاست میں اعلان کرا دیا گیا کہ جو شخص اس باز کو اونچا اڑانے میں کامیاب ہوگا اس ڈھیروں انعام دیا جائے گا.

پھر کیا تھا، ایک سے ایک ماہرین آئے اور باز کو اڑانے کی کوشش کرنے لگے، پر ہفتوں گزر جانے کے بعد بھی باز کا وہی حال تھا، وہ تھوڑا سا اڑ کر واپس ڈال پر آکر بیٹھ جاتا.

پھر ایک دن کچھ منفرد ہوا، بادشاہ نے دیکھا کہ اس کے دونوں باز آسمان میں پرواز کر رہے ہیں. انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں ہوا اور انہوں نے فوری طور پر اس شخص کا پتہ لگانے کو کہا جس نے یہ کارنامہ کر دکھایا تھا.

وہ شخص ایک کسان تھا.

اگلے دن وہ دربار میں حاضر ہوا. اس کے انعام میں طلائی کرنسیاں ملنے کے بعد بادشاہ نے کہا، "میں تم سے بہت خوش ہوں، بس آپ کو اتنا بتا کہ جو کام بڑے بڑے ودوان نہیں کر پائے وہ تمنے کیسے کر دکھایا. "

"مالک! میں تو ایک عام سا کسان ہوں، میں علم کی زیادہ باتیں نہیں جانتا، میں نے تو بس وہ ڈال کاٹ دی جس پر بیٹھنے کا باز وغیرہ ہو چکا تھا، اور جب وہ ڈال ہی نہیں رہی تو وہ بھی اپنے ساتھی کے ساتھ پرواز لگا. "

دوستوں، ہم سب سے اونچا اڑنے کے لئے ہی بنے ہیں. لیکن کئی بار ہم جو کر رہے ہوتے ہیں اس کے اتنے وغیرہ ہو جاتے ہیں کہ اپنی اونچی پرواز کرنے کی، کچھ بڑا کرنے کی قابلیت کو بھول جاتے ہیں. اگر آپ بھی سالوں سے کسی ایسے ہی کام میں لگے ہیں جو آپ صحیح potential کے مطابق نہیں ہے تو ایک بار ضرور سوچیں کہ کہیں آپ بھی اس ڈال کاٹنے کی ضرورت تو نہیں جس پر آپ بیٹھے ہوئے ہیں؟

▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬

اختر شیرانی کا عشق رسول

اختر شیرانی کا عشق رسول

اختر شیرانی اک بلانوش شرابی، محبت کا سخنور اور رومان کا تاجر تھا۔ لاہور کے ایک مشہور ہوٹل میں ایک دفعہ چند کمیونسٹ نوجوانوں نے جو بلا کے ذہین تھے رومانوی شاعر اختر شیرانی سے مختلف موضوعات پر بحث چھیڑ دی۔ وہ بلانوش تھے شراب کی دو بوتلیں وہ اپنے حلق میں انڈیل چکے تھے، ہوش و حواس کھو چکے تھے تمام بدن پر رعشہ طاری تھا حتی کہ دم گفتار الفاظ بھی ٹوٹ ٹوٹ کر زباں سے نکل رہے تھے۔
ادھر اختر شیرانی کی انا کا شروع ہی سے یہ عالم تھا کہ اپنے سوا کسی کو مانتے نہیں تھے۔ نجانے کیا سوال زیر بحث تھا فرمایا ’’مسلمانوں میں اب تک تین شخص ایسے پیدا ہوئے ہیں جو ہر اعتبار سے جینیس (ذہن و فطین) بھی ہیں اور کامل فن بھی، پہلے ابوالفضل، دوسرے اسداللہ خان غالب، تیسرے ابوالکلام آزاد۔ ۔ شاعر وہ شاذ ہی کسی کو مانتے تھے ہمعصر شعراء میں جو واقعی شاعر تھے انہیں بھی اپنے سے کمتر خیال کرتے تھے۔ کمیونسٹ نوجوانوں نے فیض کے بارے میں سوال کیا، طرح دے گئے۔ ۔ ۔ جوش کے متعلق پوچھا، کہا : وہ ناظم ہے۔ ۔ ۔ سردار جعفری کا نام لیا تو مسکرا دیئے۔ ۔ ۔فراق کا ذکر چھیڑا تو ہوں ہاں کر کے چپ ہو گئے۔ ۔ ۔ ساحر لدھیانوی کی بات کی، سامنے بیٹھا تھا، فرمایا : مشق کرنے دو۔ ۔ ۔ظہیر کاشمیری کے بارے میں کہا : نام سنا ہے۔ ۔ ۔ احمد ندیم قاسمی؟ فرمایا : میرا شاگرد ہے۔ ۔ ۔
نوجوانوں نے جب دیکھا کہ ترقی پسند تحریک ہی کے منکر ہیں تو بحث کا رخ پھیر دیا۔ کہنے لگے حضرت فلاں پیغمبر علیہ السلام کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آنکھیں مستی میں سرخ ہو رہی تھیں، نشے میں چور تھے، زباں پر قابو نہیں تھا لیکن چونک کر فرمایا : کیا بکتے ہو؟ ادب و انشاء یا شعر و شاعری کی بات کرو‘‘۔ ۔ ۔ اس پر کسی نے فوراً ہی افلاطون کی طرف رخ موڑ دیا کہ اس کے مکالمات کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ارسطو اور سقراط کے بارے میں سوال کیا مگر اس وقت وہ اپنے موڈ میں تھے فرمایا اجی! یہ پوچھو کہ ہم کون ہیں؟ یہ ارسطو افلاطون یا سقراط آج ہوتے تو ہمارے حلقے میں بیٹھتے۔ ہمیں ان سے کیا غرض کہ ہم ان کے بارے میں رائے دیتے پھریں۔
ان کی لڑکھڑاتی ہوئی آواز سے شہ پا کر ایک ظالم کمیونسٹ نے چبھتا ہوا سوال کیا آپ کا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں کیا خیال ہے۔ ۔ ۔؟
اللہ اللہ! نشے میں چور اک شرابی۔ ۔ ۔
جیسے کوئی برق تڑپی ہو، بلور کا گلاس اٹھایا اور اسکے سر پر دے مارا۔ ۔ ۔
بدبخت اک عاصی سے سوال کرتا ہے۔ ۔ ۔اک روسیاہ سے پوچھتا ہے۔ ۔ ۔اک فاسق سے کیا کہلوانا چاہتا ہے۔ ۔ ۔؟ غصے سے تمام بدن کانپ رہا تھا، اچانک رونا شروع کر دیا حتی کہ ہچکیاں بندھ گئیں۔ ایسی حالت میں تم نے یہ نام کیوں لیا؟ تمہیں جرات کیسے ہوئی؟ گستاخ! بے ادب "باخدا دیوانہ باش بامحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوشیار" اس شریر سوال پہ توبہ کرو میں تمہارے خبث باطن کو سمجھتا ہوں۔ خود قہر و غضب کی تصویر ہو گئے۔
اس نوجوان کا حال یہ تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ اس نے بات کو موڑنا چاہا مگر اختر کہاں سنتے تھے۔ اسے محفل سے نکال دیا پھر خود بھی اٹھ کر چل دیئے۔ ساری رات روتے رہے کہتے تھے ’’یہ لوگ اتنے بے باک ہو گئے ہیں کہ ہمارا آخری سہارا بھی ہم سے چھین لینا چاہتے ہیں، میں گنہگار ضرور ہوں لیکن یہ مجھے کافر بنا دینا چاہتے ہیں‘‘۔
رات کے تاریک سناٹوں کی پیداوار لوگ میکدوں میں سیرت خیرالبشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ نکتہ چیں.

(ماخوذ از مضامین شورش)

Monday 13 February 2017

ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮑﺎ ﺣﺴﺎﺏ ﻟﻮﻧﮕﺎ !

ﺍﯾﮏ ﺣﺴﯿﻦ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﮐﺎ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺳﯿﺪ ﺍﻻﻧﺒﯿﺎﺀ ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ ﻃﻮﺍﻑ ﻓﺮﻣﺎ ﺭﮨﮯ تھے ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺍﻋﺮﺍﺑﯽ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﮔﮯ ﻃﻮﺍﻑ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﺎﯾﺎ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﭘﺮ ﯾﺎﮐﺮﯾﻢ ﯾﺎﮐﺮﯾﻢ ﮐﯽ ﺻﺪﺍ ﺗﮭﯽ ﺣﻀﻮﺭ ﺍﮐﺮﻡ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺳﮯ ﯾﺎﮐﺮﯾﻢ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯾﺎ .
ﻭﮦ ﺍﻋﺮﺍﺑﯽ ﺭﮐﻦ ﯾﻤﺎﻧﯽ ﮐﯿﻄﺮﻑ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﻮ ﭘﮍﮬﺘﺎ ﯾﺎﮐﺮﯾﻢ ﺳﺮﮐﺎﺭ ﺩﻭﻋﺎﻟﻢ ﺑﮭﯽ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺳﮯ ﭘﮍﮬﺘﮯ ﯾﺎﮐﺮﯾﻢ
ﻭﮦ ﺍﻋﺮﺍﺑﯽ ﺟﺲ ﺳﻤﺖ ﺑﮭﯽ ﺭﺥ ﮐﺮﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮍﮬﺘﺎ ﯾﺎﮐﺮﯾﻢ
ﺳﺮﮐﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﮯ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﻼﺗﮯﮨﻮﺋﮯ ﯾﺎﮐﺮﯾﻢ ﭘﮍﮬﺘﮯ۔

ﺍﻋﺮﺍﺑﯽ ﻧﮯ ﺗﺎﺟﺪﺍﺭ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ ﮐﯿﻄﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ "ﺍﮮ ﺭﻭﺷﻦ ﭼﮩﺮﮮ ﻭﺍﻟﮯ ! ﺍﮮ ﺣﺴﯿﻦ ﻗﺪ ﻭﺍﻟﮯ، ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﮐﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﺍﺗﻨﺎ ﺭﻭﺷﻦ ﺍﻭﺭ ﻋﻤﺪﮦ ﻗﺪ ﻧﮧ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﮔﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﺿﺮﻭﺭ ﮐﺮﺗﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﻣﺬﺍﻕ ﺍﮌﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ" ۔۔۔۔
.
ﺳﯿﺪ ﻋﺎﻟﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺗﺒﺴﻢ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ "ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺒﯽ ﮐﻮ ﭘﮩﭽﺎﻧﺘﺎ ﮨﮯ ؟"
ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ: ﻧﮩﯿﮟ۔
ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﭘﮭﺮ ﺗﻢ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮐﯿﺴﮯ ﻻﺋﮯ؟
ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ: ﺑﻦ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﺍﻧﮑﯽ ﻧﺒﻮﺕ ﻭ ﺭﺳﺎﻟﺖ ﮐﻮ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﯿﺎ ﻣﺎﻧﺎﺍﻭﺭ ﺑﻐﯿﺮ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻧﮑﯽ ﺭﺳﺎﻟﺖ ﮐﯽ ﺗﺼﺪﯾﻖ ﮐﯽ۔
ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ " ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮨﻮ ﻣﯿﮟ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﺍ ﻧﺒﯽ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺁﺧﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﯼ ﺷﻔﺎﻋﺖ ﮐﺮﻭﻧﮕﺎ"۔

ﻭﮦ ﺣﻀﻮﺭ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﺍ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﺳﮯ ﺩﯾﻨﮯ ﻟﮕﺎ ! ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ: ﺳﺎﺗﮫ ﻭﮦ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﻧﮧ ﮐﺮ ﺟﻮ ﻋﺠﻤﯽ ﻟﻮﮒ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮨﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺘﮑﺒﺮ ﻭﺟﺎﺑﺮ ﺑﻨﺎﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺸﯿﺮ ﻭ ﻧﺬﯾﺮ ﺑﻨﺎﮐﺮ ﺑﮭﯿﺠﺎ۔
ﮨﮯﺭﺍﻭﯼ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺗﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﺒﺮﯾﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺁﺋﮯﺍﻭﺭ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺟﻞ ﺟﻼﻟﮧ ﻧﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ " ﺍﺱ ﺍﻋﺮﺍﺑﯽ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﺩﯾﮟ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺍﺳﮑﺎ ﺣﺴﺎﺏ ﻟﯿﮟ ﮔﮯ"۔
ﺍﻋﺮﺍﺑﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ: ﯾﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ! ﮐﯿﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺣﺴﺎﺏ ﻟﮯ ﮔﺎ؟
ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ: ﮨﺎﮞ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﭼﺎﮨﮯ ﺗﻮ ﺣﺴﺎﺏ ﻟﯿﮕﺎ۔
ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ: ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﺍ ﺣﺴﺎﺏ ﻟﯿﮕﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮑﺎ ﺣﺴﺎﺏ ﻟﻮﻧﮕﺎ۔
ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ: ﮐﮧ ﺗﻮ ﮐﺲ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﺣﺴﺎﺏ ﻟﯿﮕﺎ 
ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ: ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﮐﺎ ﺣﺴﺎﺏ ﻟﯿﮕﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮑﯽ ﺑﺨﺸﺶ ﮐﺎ ﺣﺴﺎﺏ ﻟﻮﻧﮕﺎ، ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﻨﺎﮦ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺗﯿﺮﯼ ﺑﺨﺸﺶ۔ ۔ ۔ ۔
ﺍﮔﺮ ﺍﺱ ﻧﮯﻣﯿﺮﯼ ﻧﺎﻓﺮﻧﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﺣﺴﺎﺏ ﻟﯿﮕﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮑﯽ ﻣﻌﺎﻓﯽ ﮐﺎ ﺣﺴﺎﺏ ﻟﻮﻧﮕﺎ۔ ۔ ۔ 
ﺍﮔﺮ ﺍﺳﻨﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺨﻞ ﮐﺎ ﺍﻣﺘﺤﺎﻥ ﻟﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻓﻀﻞ ﻭ ﮐﺮﻡ ﮐﺎ ﺣﺴﺎﺏ ﻟﻮﻧﮕﺎ۔ ۔ ۔

ﺣﻀﻮﺭ ﺍﮐﺮﻡ ﺳﯿﺪ ﻋﺎﻟﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻠﻤﯿﮧ ﺳﺐ ﺳﻤﺎﻋﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺗﻨﺎ ﺭﻭﺋﮯ ﮐﮧ ﺭﯾﺶ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺁﻧﺴﻮﺅﮞ ﺳﮯ ﺗﺮ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔
ﭘﮭﺮ ﺟﺒﺮﯾﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺁﺋﮯﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﻭﻧﺎ ﮐﻢ ﮐﺮﯾﮟ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺭﻭﻧﮯ ﻧﮯ ﻓﺮﺷﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﺴﺒﯿﺢ ﻭ ﺗﺤﻠﯿﻞ ﺑﮭﻼﺩﯼ ﮨﮯﺍﭘﻨﮯ ﺍﻣﺘﯽ ﮐﻮ ﮐﮩﯿﮟ ﻧﮧ ﻭﮦ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺣﺴﺎﺏ ﻟﮯ ﻧﮧ ﮨﻢ ﺍﺳﮑﺎ ﺣﺴﺎﺏ ﻟﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺧﻮﺷﺨﺒﺮﯼ ﺳﻨﺎﺩﯾﮟ ﯾﮧ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﮨﻮﮔﺎ۔
           
ﮐﯿﺎﻋﻘﻞ ﻧﮯ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﮨﮯ ﮐﯿﺎ ﻋﺸﻖ ﻧﮯ ﺟﺎﻧﺎ ﮨﮯ
ﺍﻥ ﺧﺎﮎ ﻧﺸﯿﻨﻮﮞ ﮐﯽ ﭨﮭﻮﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﮨﮯ

ﮐﺘﺎﺏ : ﻣﺴﻨﺪ ﺍﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻤﺒﻞ۔

Sunday 12 February 2017

ایک زمین : دو غزلیں

🏷ⓜⓣ                           🌹🌹

محسن نقوی کی غزل :

سایۂ  گُل سے بہر طَور جُدا ہو جانا
راس آیا نہ مجھے موجِ صبا ہو جانا

اپنا ہی جسم مجھے تیشۂ فرہاد لگا
میں نے چاہا تھا پہاڑوں کی صدا ہو جانا

موسمِ گُل کے تقاضوں سے بغاوت ٹھہرا
قفسِ غنچہ سے خوشبو کا رِہا ہو جانا

قصرِ آواز میں اک حشر جگا دیتا ہے
اُس حسیں شخص کا تصویر نما ہو جانا

راہ کی گرد سہی ، مائلِ پرواز تو ہُوں
مجھ کو آتا نہیں نقشِ کفِ پا ہو جانا

زندگی تیرے تبسّم کی وضاحت تو نہیں؟
موجِ طوفاں کا اُبھرتے ہی فنا ہو جانا

کیوں نہ اُس زخم کو میں پھول سے تعبیر کروں
جس کو آتا ہو ترا "بندِ قبا" ہو جانا

اشکِ کم گو ! تجھے لفظوں کی قبا گر نہ مِلے
میری پلکوں کی زباں سے ہی ادا ہو جانا

قتل گاہوں کی طرح سُرخ ہے رستوں کی جبیں
اک قیامت تھا مِرا آبلہ پا ہو جانا

پہلے دیکھو تو سہی اپنے کرم کی وسعت
پھر بڑے شوق سے تُم میرے خدا ہو جانا

بے طلب دَرد کی دولت سے نوازو مجھ کو
دل کی توہین ہے مرہونِ دُعا ہو جانا

میری آنکھوں کے سمندر میں اُترنے والے
کون جانے تِری قسمت میں ہے کیا ہو جانا!

کتنے خوابیدہ مناظر کو جگائے محسن!
جاگتی آنکھ کا پتھرایا ہُوا ہو جانا!

(بندِ قبا :  1969)

ا___________________________________

احمد فراز کی غزل :

بے نیازِ غمِ پیمانِ وفا ہو جانا
تم بھی اوروں کی طرح مجھ سے جدا ہو جانا

میں بھی پلکوں پہ سجا لوں گا لہو کی بوندیں
تم بھی پا بستۂ زنجیرِ حنا ہو جانا

گرچہ اب قرب کا امکاں ہے بہت کم پھر بھی
کہیں مل جائیں تو تصویر نما ہو جانا

صرف منزل کی طلب ہو تو کہاں ممکن ہے
دوسروں کے لیے خود آبلہ پا ہو جانا

خلق کی سنگ زنی میری خطاؤں کا صلہ
تم تو معصوم ہو تم دُور ذرا ہو جانا

اب مرے واسطے تریاق ہے الحاد کا زہر !
تم کسی اور پجاری کے خدا ہو جانا

( دردِ آشوب : 1966 )

  ─•═▤ 🌒 مــاہِ 🌙 تـمــام 🌘 ▤═•─
...✒اردو شاعری کے لئے معتبر گروپ🖋...
      ┏┅━┅━┅━┅━┅━┅━┅─╮
      ┇🌒MAHE🌙TAMAM🌘
      ┗┅━┅━┅━┅━─╮
         شمولیت کے لئے رابطہ کریں
            📲 09270021230
            

Wednesday 8 February 2017

ساری ہی غلطیاں ہیں

ایک ہیڈ ماسٹر  کے بارے میں ایک واقعہ بہت مشہور ہوا، جو بہت سے لوگوں کی زبانی میں نے ان کی وفات کے بعد سنا۔ جب وہ کسی سکول میں استاد تعینات تھے تو انہوں نے اپنی کلاس کا ٹیسٹ لیا۔
ٹیسٹ کے خاتمے پر انہوں نے سب کی کاپیاں چیک کیں اور ہر بچے کو اپنی اپنی کاپی اپنے ہاتھ میں پکڑکر ایک قطار میں کھڑا ہوجانے کو کہا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ جس کی جتنی غلطیاں ہوں گی، اس کے ہاتھ پر اتنی ہی چھڑیاں ماری جائیں گی۔
اگرچہ وہ نرم دل ہونے کے باعث بہت ہی آہستگی سے بچوں کو چھڑی کی سزا دیتے تھے تاکہ ایذا کی بجائے صرف نصیحت ہو، مگر سزا کا خوف اپنی جگہ تھا۔ تمام بچے کھڑے ہوگئے۔ ہیڈ ماسٹر سب بچوں سے ان کی غلطیوں کی تعداد پوچھتے جاتے اور اس کے مطابق ان کے ہاتھوں پر چھڑیاں رسید کرتے جاتے۔
ایک بچہ بہت گھبرایا ہوا تھا۔ جب وہ اس کے قریب پہنچے اور اس سے غلطیوں کی بابت دریافت کیا تو خوف کے مارے اس کے ہاتھ سے کاپی گرگئی اور گھگیاتے ہوئے بولا:

”جی میری ساری ہی غلطیاں ہیں۔“

معرفت کی گود میں پلے ہوئے ہیڈ ماسٹر اس کے اس جملے کی تاب نہ لاسکے اور ان کے حلق سے ایک دلدوز چیخ نکلی۔ ہاتھ سے چھڑی پھینک کر زاروقطار رونے لگے اور بار بار یہ جملہ دہراتے:

”یااللہ! مجھے معاف کردینا۔ میری تو ساری ہی غلطیاں ہیں۔“

روتے روتے ان کی ہچکی بندھ گئی۔ اس بچے کو ایک ہی بات کہتے

”تم نے یہ کیا کہہ دیا ہے، یہ کیا کہہ دیا ہے میرے بچے!“

”یااللہ! مجھے معاف کردینا۔ میری تو ساری ہی غلطیاں ہیں۔“

Wednesday 1 February 2017

قمیص کی قیمت

ایک بازار سے ایک مغرور بندہ گذر رہا تھا کہ اس کی نظر سر پر ایک ڈول اٹھائے عورت پر پڑی، اس نے اسے آواز دیکر روکا اور نخوت سے پوچھا: اے مائی، کیا بیچ رہی ہو؟

عورت نے کہا: جی میں گھی بیچ رہی ہوں۔
اس شخص نے کہا: اچھا دکھاؤ تو، کیسا ہے؟

گھی کا وزنی ڈول سر سے اتارتے ہوئے کچھ گھی اس آدمی کی قمیض پر گرا تو یہ بہت بگڑ گیا اور دھاڑتے ہوئے بولا: نظر نہیں آتا کیا، میری قیمتی قمیض خراب کر دی ہے تو نے؟ میں جب تک تجھ سے اس قمیض کے پیسے نا لے لوں، تجھے تو یہاں سے ہلنے بھی نہیں دونگا۔

عورت نے بیچارگی سے کہا؛ میں مسکین عورت ہوں، اور میں نے آپ کی قمیض پر گھی جان بوجھ کر نہیں گرایا، مجھ پر رحم کرو اور مجھے جانے دو۔

اس آدمی نے کہا؛ جب تک تجھ سے دام نا لے لوں میں تو تجھے یہاں سے ہلنے بھی نہیں دونگا۔

عورت نے پوچھا: کتنی قیمت ہے آپ کی قمیض کی؟
اس شخص نے کہا: ایک ہزار درہم۔
عورت نے روہانسا ہوتے ہوئے کہا: میں فقیر عورت ہوں، میرے پاس سے ایک ہزار درہم کہاں سے آئیں گے؟

اس شخص نے کہا: مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔
عورت نے کہا: مجھ پر رحم کرو اور مجھے یوں رسوا نا کرو۔

ابھی یہ آدمی عورت پر اپنی دھونس اور دھمکیاں چلا ہی رہا تھا کہ وہاں سے کہ ایک نوجوان کا گزر ہوا۔ نوجوان نے اس سہمی ہوئی عورت سے ماجرا پوچھا تو عورت نے سارا معاملہ کہہ سنایا۔

نوجوان نے اس آدمی سے کہا؛ جناب، میں دیتا ہوں آپ کو آپ کی قمیض کی قیمت۔ اور جیب سے ایک ہزار درہم نکال کر اس مغرور انسان کو دیدیئے۔

یہ آدمی ہزار درہم جیب میں ڈال کر چلنے لگا تو نوجوان نے کہا: جاتا کدھر ہے؟
آدمی نے پوچھا: تو تجھے کیا چاہیئے مجھ سے؟
نوجوان نے کہا: تو نے اپنی قمیض کے پیسے لے لیئے ہیں ناں؟
آدمی نے کہا: بالکل، میں نے ایک ہزار درہم لے لیئے ہیں۔

نوجون نے کہا: تو پھر قمیض کدھر ہے؟
آدمی نے کہا: وہ کس لیئے؟
نوجوان نے کہا: ہم نے تجھے تیری قمیض کے پیسے دیدیئے ہیں، اب اپنی قمیض ہمیں دے اور جا۔

آدمی نے گربڑاتے ہوئے کہا: تو کیا میں ننگا جاؤں؟
نوجوان نے کہا: ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔
آدمی نے کہا: اور اگر میں یہ قمیض نا دوں تو؟
نوجوان نے کہا: تو پھر ہمیں اس کی قیمت دیدے۔
اس آدمی نے پوچھا: ایک ہزار درہم؟
نوجوان نے کہا: نہیں، قیمت وہ جو ہم مانگیں گے۔
اس آدمی نے پوچھا: تو کیا قیمت مانگتے ہو؟
نوجوان نے کہا: دو ہزار درہم۔
آدمی نے کہا؛ تو نے تو مجھے ایک ہزار درہم دیئے تھے۔
نوجوان نے کہا: تیرا اس سے کوئی مطلب نہیں۔
آدمی نے کہا: یہ بہت زیادہ قیمت ہے۔
نوجوان نے کہا؛ پھر ٹھیک ہے، ہماری قمیض اتار دے۔
اس آدمی نے کچھ روہانسا ہوتے ہوئے کہا: تو مجھے رسوا کرنا چاہتا ہے؟
نوجوان نے کہا: اور جب تو اس مسکین عورت کو رسوا کر رہا تھا تو!!
آدمی نے کہا: یہ ظلم اور زیادتی ہے۔
نوجوان نے حیرت سے کہا: کمال ہے کہ یہ  تجھے ظلم لگ رہا ہے۔
اس آدمی نے مزید شرمندگی سے بچنے کیلئے، جیب سے دو ہزار نکال کر نوجوان کو دیدیئے۔
اور نوجوان نے مجمعے میں اعلان کیا کہ دو ہزار اس عورت کیلئے میری طرف سے ہدیہ ہیں۔ہمارے ہاں بھی اکثریت کا حال ایسا ہی ہے۔ ہمیں دوسروں کی تکلیف اور توہین سے کوئی مطلب نہیں ہوتا لیکن جب بات خود پر آتی ہے تو ظلم محسوس ہوتا ہے۔ اگر معاشرتی طور پر ہم دوسروں کی تکلیف کو اپنا سمجھنا شروع کر دیں تو دنیا کی بہترین قوموں میں ہمارا شمار ہو۔  اگر وقت ملے تو سوچئے گا۔

(منقول)

Contact Form

Name

Email *

Message *