Pages

Sunday 5 November 2017

دماغ کے لیے تباہ کن چند عام عادتیں

تحریر : حکیم محمد سلیمان خان

عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہمارا دماغ تنزلی کا شکار ہونے لگتا ہے، ہم چیزیں بھولنے لگتے ہیں اور معمے حل کرنا ماضی جیسا آسان کام نہیں رہتا۔ اگرچہ بڑھاپے کے عمل کو واپسی کا راستہ دکھانا تو ممکن نہیں، لیکن ہم اپنے ذہن کو ضرور ہر عمر کے مطابق فٹ رکھ سکتے ہیں۔

مگر کچھ عادتیں ایسی ہوتی ہیں جو دماغ کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی ہیں اور ذہنی تنزلی کی جانب سفر تیز ہوجاتا ہے۔

*۞رات گئے سونا یا کم نیند۞*
دماغ کے لیے تباہ کن عادات میں سے ایک نیند کی کمی یا رات گئے سونا ہے جو کہ ڈیمینشیا اور الزائمر جیسے امراض کا خطرہ بڑھاتی ہے، اگر رات کو 7 سے آٹھ گھنٹے کی نیند پوری نہ کی جائے تو یہ خطرہ بڑھ جاتا ہے اور بدقسمتی سے آج کل بیشتر افراد اس بری عادت کا شکار ہیں، ماہرین کے مطابق رات کو صحیح نیند نہیں آتی تو چائے یا کافی جیسے مشروبات سے گریز اور سونے سے کچھ دیر پہلے اسمارٹ فونز کا استعمال ترک کردینا چاہیے۔

*۞تنہا زیادہ وقت گزارنا۞*
انسان میل ملاقات کو پسند کرتے ہیں، فیس بک پر چاہے کتنے بھی زیادہ دوست ہوں مگر حقیقی زندگی میں کوئی دوست نہ ہونا دماغ کے لیے مضر ثابت ہوتا ہے، ایک تحقیق کے مطابق چند قریبی دوست زندگی کو خوش باش بنانے اور کریئر میں زیادہ بامقصد کام کرنے میں مدد دیتے ہیں، اسی طرح دماغی تنزلی اور الزائمر جیسے امراض کا خطرہ بھی کم ہوجاتا ہے۔

*۞جنک فوڈ کا زیادہ استعمال۞*
دماغ کے کچھ حصے سیکھنے، یاداشت اور دماغی صحت وغیرہ کے لیے ہوتے ہیں، ان کا حجم ایسے افراد میں بہت چھوٹا ہوتا ہے جو جنک فوڈ جیسے برگرز، فرنچ فرائز اور سافٹ ڈرنکس کے شوقین ہوتے ہیں، دوسری جانب بیریاں، اجناس، گریاں اور سبز پتوں والی سبزیاں دماغی افعال کو محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہونے والی غذائیں ہیں۔

*۞‌کانوں میں ہر وقت ہیڈ فون لگے رہنا۞*
جب کانوں کے پردے پر ہر وقت ہیڈ فونز کا شور سنائی دے تو سماعت متاثر ہونے کا خطرہ ہوتا ہے، مگر معاملہ صرف کانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ دماغی مسائل جیسے الزائمر اور دماغی ٹشوز ختم ہونے کا سبب بھی بن سکتا ہے، جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ حسِ سماعت متاثر ہونے سے دماغ کو بات سمجھنے کے لیے بہت زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے اور باتیں یاداشت میں محفوظ نہیں ہوتیں، لہذا ہیڈ فونز ضرور لگائیں مگر ان کا والیوم 60 فیصد سے زیادہ نہ کریں اور ایک وقت میں دو گھنٹے سے زیادہ وقت تک انہیں کانوں پر نہ لگائیں۔

*۞سست طرز زندگی۞*
آپ جتنا جسمانی سرگرمیوں سے دور ہوتے ہیں، اتنا ہی دماغی تنزلی کے مرض ڈیمینشیا کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، اس کے علاوہ ذیابیطس، امراض قلب اور ہائی بلڈ پریشر جیسے امراض کا خطرہ بھی ہوتا ہے اور یہ سب الزائمر سے بھی جڑے ہوتے ہیں۔ ہفتے میں تین بار کچھ منٹ کی تیز چہل قدمی بھی اس خطرے سے بچانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔

*۞‌تمباکو نوشی۞*
تمباکو نوشی کے نتیجے میں دماغ سکڑ جاتا ہے اور یہ کوئی اچھی چیز نہیں، اس کے نتیجے میں یاداشت بدترین ہوتی ہے اور دماغی امراض کا خطرہ دوگنا زیادہ بڑھا جاتا ہے، تمباکو نوشی کے دیگر نقصانات کے بارے میں بتانا ضروری نہیں جو دل کے امراض، ذیابیطس، فالج اور ہائی بلڈ پریشر کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔

*۞حد سے زیادہ کھانا۞*
اگر آپ بہت زیادہ کھانا کھاتے ہیں، چاہے وہ صحت کے لیے ضروری غذائیں ہی کیوں نہ ہوں تو آپ کا دماغ سوچنے اور یاد رکھنے کے لیے مضبوط نیٹ ورک کو تشکیل دینے کے قابل نہیں رہتا، حد سے زیادہ کھانا خطرناک حد تک جسمانی وزن بڑھا سکتا ہے جس کے نتیجے میں امراض قلب، ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر جیسے امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جو آگے بڑھ کر دماغی مسائل کا باعث بنتے ہیں۔

*۞سورج سے دوری۞*
اگر آپ کے جسم کو مناسب مقدار میں قدرتی روشنی نہیں ملتی تو ڈپریشن کا خطرہ تو بڑھتا ہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ دماغ کی رفتار بھی سست روی کا شکار ہوسکتی ہے، تحقیق کے مطابق سورج کی روشنی دماغ کو ٹھیک طرح کام کرنے میں مدد دیتی ہے۔

Sunday 13 August 2017

مولوی دا چن۔۔۔۔۔

لاجواب تحریر۔۔۔

لیبارٹری میں پروفیسر ہمیں مینڈک کے پھیپھڑوں کے خلیات کا نظارہ خورد بین سے باری باری کروا رہے تھے اور ہم ابکائیاں لے لے کر نظارے سے محظوظ ہو رہے تھے۔ ملا کی باری آئی۔
(قریباً ہر کلاس میں ایک داڑھی والا لڑکا ہوتا ہے جس کا نام ملا ہی پڑ جاتا ہے)
اور عادت کے مطابق اس نے خوب تسلی سے خلیات دیکھے اور مستقل سبحان اللہ کا ورد کرتا رہا۔ اس پر ہمارے روشن خیال پروفیسر کا چہرہ کچھ مزید ترچھا سا ہوتا چلا گیا اور ناپسندیدگی کے تاثرات چہرے پر بد نما پھوڑوں کی طرح ابھر آئے۔
“سر مجھے اجازت مل سکتی ہے؟ ظہر کا وقت ہو گیا ہے۔” ملا نے سر اٹھا کر پروفیسر سے سوال کیا۔
“ہاں ہاں بالکل جاؤ بھئی۔ ویسے بھی یہاں تو تمہارے مطلب کی باتیں زیادہ ہوتی بھی نہیں۔ مجھے لگتا ہے تمہیں زیادہ تر وقت مسجد مدرسوں میں ہی گزارنا چاہیے۔ تم اسی قابل ہو۔” پروفیسر صاحب الفاظ میں جتنے نشتر چھپا کر چلا سکتے تھے چلا دیے۔
ملا نے مسکراتے ہوئے شکریہ ادا کیا اور لیب سے باہر نکل گیا۔
“دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے اور یہ ملا آج بھی زمین پر ٹکرنے مارنے میں مصروف ہے۔” پروفیسر باآوازِ بلند بڑبڑائے۔
کلاس میں سارے ہی مسلمان تھے مگر ‘نمبر’ پروفیسر صاحب کے ہاتھ میں تھے اس لیے بعض لڑکے لڑکیاں خاموش رہے اور باقیوں نے مسکرا کر یا ہنس کر پروفیسر صاحب کو خوش کرنے کی کوشش کی۔ سر کی بدقسمتی کہ کلاس میں مجھ جیسا بد زبان بھی موجود تھا جسے اگر ملا کی کوئی خاص پروا نہیں تھی تو ‘نمبروں’ کی تو بالکل بھی نہیں تھی۔
“سر ۔ ۔ ۔ آپ کتنی بار چاند پر جا چکے ہیں؟” میں نے معصومیت سے پوچھا۔
“کیا مطلب؟” پروفیسر ایک جھٹکے سے سیدھے ہو گئے۔
“مطلب سر آپ کو تو زمین پر ٹکریں مارتے کبھی نہیں دیکھا اور آپ نے جو ابھی ابھی ملا کی چاند پر نہ جا سکنے کی وجہ بتائی ہے اس اعتبار سے تو آپ کئی بار چاند کی سیر کر کے آ چکے ہونگے۔ پلیز بتائیں نا کیسا ہوتا ہے چاند اور کیا واقعی چاند پر پریاں رہتی ہیں؟” میں بولنا شروع ہوا تو روانی میں بولتا ہی چلا گیا۔
جب پروفیسر کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھیں غصے کے مارے ابل کر باہر آنے کا راستہ ڈھونڈ رہی تھیں۔
“شٹ اپ۔ یو بلڈی سٹوپڈ۔ میں بیالوجسٹ ہوں۔ میرا کام چاند پر جانا نہیں ہے!!!” پروفیسر چلائے۔
“اوہ ہ ۔ ۔ ۔ تو آپ کو شاید کسی نے یہ بتا دیا ہے کہ ملا خلاء باز ہے اور بیالوجی پڑھنے شوقیہ آتا ہے!” چڑے ہوئے کو مزید چڑانا میرا پسندیدہ مشغلہ تھا، ویسے بھی اب تو سر نے مجھے شٹ اپ اور سٹوپڈ جیسے سخت الفاظ کہ کر باقاعدہ اعلانِ جنگ کر دیا تھا۔
“اگر خود نہیں ہے تو دوسروں کو بھی نہیں بننے دینا اس نے اور اس کی قبیل نے۔ یہ ملے مسجدوں میں بیٹھ کر لوگوں کو لوٹے سے وضو کرنا سکھاتے ہیں یہ نہیں بتاتے کہ راکٹ بناؤ مشینیں بناؤ۔” پروفیسر نے مٹھیاں بھینچ کر بے ربط اور نا مکمل سا جواب دیا۔
ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ مینڈک کے بجائے میرے ٹکڑے کر کے خورد بین کے نیچے ڈال دیں۔

“سر معاف کیجیے گا۔ مگر امریکہ کے چرچ میں بیٹھا پادری بھی لوگوں کو مشینیں بنانے کا نہیں کہتا۔ وہ بھی لوگوں کا بپتسمہ ہی کرتا ہے، لہک لہک کر آرکیسٹرا کے ساتھ عبادات کرتا ہے اور ‘مقدس روح’ کے ساتھ باتیں کر کے لوگوں کے مسئلے حل کرتا ہے۔ مگر وہاں کا کوئی دانشور کوئی سائنس دان یہ کہتا ہوا نہیں نظر آتا کہ پادری ابھی تک لوگوں کو مقدس دعائیں یاد کرواتا ہے۔ کیونکہ وہاں ہر کوئی اپنی اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے اور اپنی اپنی ناکامی اور نا اہلی کو تسلیم کرتا ہے۔ اگر ہمارے ہاں کا سائنسدان چاند پر نہیں پہنچ سکا تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ ملا نے اس کا پائنچہ پکڑ رکھا ہے بلکہ وجہ اس کی اپنی نااہلی ہے۔ جب تک ہم میں سے ہر کوئی اپنی اپنی کمزوریوں کو تسلیم کر کے ان پر محنت کرنے کے بجائے دوسروں پر الزام لگاتا رہے گا، ہم زمین پر ہی رہینگے’ ہمارا چاند کبھی نہیں چڑھے گا۔۔۔۔”

میں نے لیکچر ختم کیا تو سر شعلے برساتی آنکھوں سے مجھے گھور رہے تھے۔ لیب میں بھی مکمل سناٹا تھا۔ ذرا سی نظریں گھمائیں تو محسوس ہوا ہر کوئی ہی مجھے گھور رہا ہے۔ میرے پسینے چھوٹ گئے۔
“سر میں بھی نماز پڑھ کر آتا ہوں۔” میں نے ‘بہانہ’ بنا کر بیگ اٹھایا اور جو دوڑ لگائی تو سیدھا کینٹین آ کر رکا۔
بات پرانی ہو ئی۔ امتحانات ہوئے۔ نتائج لگے۔ پوری کلاس اچھے نمبروں سے پاس ہو گئی۔ جشن کا سماں تھا۔ حتی کہ ملا بھی اپنے ساٹھ نمبر لے کر پاس ہونے پر الحمداللہ کا ورد کر کے جھوم رہا تھا۔ خوشی کے مارے سب ہواؤں میں اڑ رہے تھے۔
صرف میں اکیلا تھا جو چاند پر اڑ رہا تھا۔
اور کیوں نہ اڑتا۔ میرے پیپر میں جو آج چاند نکلا تھا۔ چودھویں کا۔۔۔مگر کچھ بیضوی سا۔۔۔ کمبختوں نے چاند پر جا جا کر اس کا حلیہ ہی بگاڑ ڈالا ۔

Tuesday 11 July 2017

آپ نماز کیوں پڑھتے ہیں؟

یہ سوال میری لائف کا بہت مشکل سوال ثابت ہوا ،
فرض ہے ؟ ،
شکر ادا کرنے کے لئے ؟
خدا ہے ہی اس قابل ؟
جہنم کے خوف سے ؟ یہ وہ جواب ہیں جو مجھے اس کے جواب میں ملتے ،
ایک ٹائم تھا جب میں نماز جہنم کے خوف سے پڑھتے تھے ،
جہنم کا خوف مجھے اٹھا کے نماز کے لئے جا کھڑا کرتا تھا ،
پر مجھے وہ نماز فرض کی ادائیگی کبھی بھی نہ لگ سکی ،
پھر مجھ سے نماز نہ تو آرام سے پڑھی جاتی تھی ، اور نہ یکسوئی سے ،
پھر خوف بھی کم ہوتا گیا ،
پھر جنّت کا بیان پڑھا تو اس کو پا لینے کی چاہ جاگی ،
میں پھر سے نماز پڑھنے لگا ،
مگر یہ بھی چند دن ہی رہی کیفیت ،
اپنے ابّا جی سے کہا تو بولے ،
بیٹا اس نے دنیا کی ھر نعمت سے نوازا ہے تم اس رشتوں شکر ادا کرنے کے لئے پڑھا کرو ،
ذہن میں یہ رکھ کی بھی نماز پڑھ لی ،،
دل کی حالت اب بھی وہی تھی ،،
پھر ایک دن بہت عجیب بات ہوئی ،
میں جائے نماز پے کھڑا ، اور مجھے نماز بھول گئی ،
بہت یاد کرنے کی کوشش کی ،
بھلا نماز ہم کیسےبھول سکتےہیں ؟
مجھے خود پے بہت رونا آیا ،
اور میں وہیں بیٹھ کے رونے لگا ،
تو مجھے لگا کوئی تسلی دینے والا ہاتھ ہے میرے سر پے ،،جیسے بچہ رو رہا ہو توہم سر پے ہاتھ رکھکے دلاسا دیتے ہیں ،
مجھے لگا کوئی پوچھ رہا ہے ، کے کیا ہوا ، میں نے کہا نماز بھول چکا ہوں ،،
تو جیسے پوچھا گیا ،،، تو ؟
میں حیران پریشان ،، اس تو کا جواب تو مرے پاس بھی نہیں تھا شائد ،،
پھر لگا کوئی مسکرا یا ہو ،، اور کہا ہو ،
نماز کیوں پڑھتے ہو ، ؟
خوف سے ؟
پر وہ تو غفور ہے ، رحیم ہے ، پھر خوف کیسا ؟
جنّت کے واسطے ؟ پر وہ تو درگزر فرماتا ہے ،،
شکر ادا کرنا ہے ؟ اسےضرورت نہیں ،،،،
فرض ہے؟ تو زمین پے سر ٹکرانے کو نماز نہیں کہا جاتا ،
وہ اس قابل ہے ؟ تم کیا جانو وہ کس قابل ہے ،،،،
میرے پاس الفاظ ختم، میں بس اس آواز میں گم ،،،،،
وہ جو ہے نہ ،،،
وہ تم سے کلام چاہتا ہے ،
تم اسی کو دوست مانو ، اسی سے مشورہ کرو ،
اسی کو داستان سناؤ ،،،
جیسے اپنے دوست کو سناتے ہو ، دل کی بیقراری کم ہوگی ،
پھر نماز میں سکون ملے گا ،،،،،
میری آنکھ کھلی تو میں وہیں پے تھا ، وہ یقیناً خواب تھا ،
میں دوبارہ سے وضو کر کے کھڑا ہوا ،
نماز خود بخود ادا ہوتی چلی گئی ،،،،،
دل میں سکون آتا چلا گیا ،
مگر میرا دل سجدے سے سر اٹھانے کو نہ کرے ، مجھے لگا میرے پاس ہے وہ ، مجھ سے بات کر رہا ہے ،
پھر اپنے دل کی ساری باتیں ہوتی چلی گیئں ،،
گرہیں کھلتی گیئں ،
سکون ملتا گیا ،،،
آسانیاں ہوتی گیئں ،،،
پھر آنکھ اذان سے پہلے اٹھتی ،
محبوب سے ملاقات کا انتظار رہنے لگا ،
فرض کے ساتھ نفلی نمازیں بھی ادا ہوتی گیئں ،
اللّه کا کرم ہو گیا۔

🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿

Thursday 4 May 2017

اللہ کی تقسیم سے اختلاف

٭کسی نے شادی کرلی اور دس سال تک صاحب اولاد ہونے کا منتظر رہا، اور دوسری طرف کسی کو شادی کے پہلے برس ہی اولاد ِنرینہ کی نعمت مل گئی۔۔

٭کسی نے بائیس سال کی عمر میں امریکہ سے گریجویشن کیا اور پانچ سال ایک اچھی ملازمت کے حصول میں دھکےکھاتا رہا، اور دوسری طرف ایک شخص ستائیس سال کی عمر میں سرکاری یونیورسٹی سے گریجویٹ ہوا اور فوری طور پر اسے اسکی "ڈریم جاب(Dream job )مل گئی۔

٭ کوئی پچیس سال کی عمر میں کروڑ پتی اور اپنے بزنس کا مالک تو بن گیا مگر اسکی اولاد انتہائی نااہل، نکمی اور ان پڑھ رہی اور دوسری طرف ایک شخص نے بچپن سے غربت اور محرومیاں دیکھیں مگر پچاس سال کی عمر اس کے بچے پڑھ لکھ کر سول اور ملٹری بیوروکریٹس بنے، بزنس ٹائیکون بنے کہ کروڑ پتی افراد بھی اس کی قسمت پر رشک کرنے لگے۔

ہم میں سے ہر شخص اپنی نیت اور مسلسل جدوجہد سے اپنی معاشی حالت کو بدلتاہے۔ مگر قسمت اور تقدیرکا "فیکٹر" ان سب سے اوپر ہے۔
آپ کے کلاس فیلو، دوست یا رشتہ دار یا آپ سے عمر میں چھوٹے لوگ بظاہر آپ سے آگے ہو سکتے ہیں،
ان سے جیلس (jealous) نہ ہوں اور نہ اللہ سے بدگمان ہوں کہ اس کو یہ کیوں دیا اور مجھے کیوں نہ دیا نہ اس کی شکل ہے نہ عقل اللہ نے کیا دیکھ کے اس کو یہ سب دے دیا؟ اس میں ایسی کیا خوبی اور صلاحیت ہے جو مجھ میں نہیں؟

صحت تندرستی، اولاد، تعلیم، عزت شہرت، تعلیم، جاب دولت گاڑی بڑا گھر یہ سب اللہ کی تقسیم اور اس کی عطا ہے اس لیئے اللہ کی تقسیم سے اختلاف اور اس کو چیلنج مت کیجئے۔ جو آپ کی قسمت میں ہے وہ کوئی چھین نہیں سکتا اور جو نہیں ہے وہ کوئی دے نہیں سکتا۔ ہر نعمت کو دیکھتے ہی آپ کی سوچ اس انسان کی بجائے اللہ کی طرف متوجہ ہو جائے جس نے درحقیقت اسکو یہ نعمت عطاکی۔

کسی سے پوچھا گیا "حسد" کیا ہے؟ فرمایا اللہ کی تقسیم سے اختلاف رکھنا۔
ہم کیسے نادان لوگ ہیں جو اپنے مالک سے نعمت کا سوال تو کرتے نہیں لیکن کسی اور پہ کرم ہوتا دیکھ نہیں سکتے۔ ہم دن میں کئی بار اللہ کی تقسیم سے اختلاف بھی کرتے ہیں اور "مجھ میں کیا کمی ہے" کہہ کے اس کی تقسیم کو چیلنج بھی کرتے ہیں اور پھر سکون اطمینان سےخالی دل کا شکوہ بھی کرتے ہیں !!!

Wednesday 26 April 2017

وتر کسے کہتے ہیں ؟

وتر کسے کہتے ہیں ۔۔۔۔ ؟؟؟

جانتے ہو وتر میں ہم ہر روز الله سے ایک وعدہ کرتے ہیں ۔
اور وہ وعدہ بھی عبادت کی سب سے آخری ایک رکعت میں ہوتا ہے ۔
دعائے قنوت ایک عہد ہے الله سبحانہ و تعالی کے ساتھ ۔۔۔۔  ایک معاھدہ ہے ۔۔ ایک وعدہ ہے ۔

الّٰلھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُکَ ۔۔۔۔ اے الله ! ہم صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ۔
وَنَسْتَغْفِرُکَ ۔۔۔۔۔ اور تیری مغفرت طلب کرتے ہیں ۔
وَنُؤْمِنُ بِکَ ۔۔۔۔ اور تجھ پر ایمان لاتے ہیں ۔
وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْکَ ۔۔۔۔۔۔ اور تجھ پر ہی توکل کرتے ہیں ۔
وَنُثْنِیْ اِلَیْکَ الْخَیْر ۔۔۔۔ اور تیری اچھی تعریف کرتے ہیں ۔
وَنَشْکُرُکَ ۔۔۔۔ اور ہم تیرا شکر ادا کرتے ہیں ۔
ولا نَکْفُرُکَ ۔۔۔۔ اور ہم تیرا انکار نہیں کرتے ۔
وَنَخْلَعُ ۔۔۔ اور ہم الگ کرتے ہیں ۔
وَنَتْرُکَ مَنْ یّفْجُرُکَ ۔۔۔۔ اور ہم چھوڑ دیتے ہیں اس کو جو تیری نا فرمانی کرے ۔
اللھُمَّ ایّاکَ نَعْبُدُ ۔۔۔ اے الله ! ہم خاص تیری ہی عبادت کرتے ہیں ۔
وَلَکَ نُصَلّیْ ۔۔۔ اور تیرے لئے نماز پڑھتے ہیں ۔
وَنَسْجُدُ ۔۔۔۔ اور ہم تجھے سجدہ کرتے ہیں ۔
وَاِلَیْکَ نَسْعٰی ۔۔۔ اور ہم تیری طرف دوڑ کر آتے ہیں ۔
وَنَحْفِدُ ۔۔۔۔۔ اور ہم تیری خدمت میں حاضر ہوتے ہیں ۔
وَ نَرْجُوا رَحْمَتَکَ ۔۔ اور ہم تیری رحمت کی امید رکھتے ہیں ۔
وَنَخْشٰی عَذَابَکَ ۔۔۔۔ اور ہم تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں ۔
انّ عَذَابَک بِالْکُفّارِ مُلْحِقْ۔۔۔۔۔ بے شک تیرا عذاب کافروں کو پہنچنے والا ہے ۔

کبھی کبھی کچھ باتیں بڑی دیر سے پتہ چلتی ہیں ۔۔۔ یا شاید پتہ تو ہوتی ہیں ۔۔۔ لیکن ان کی اصل سے ان کے راز سے واقف ہونے کا بھی کوئی وقت کوئی لمحہ ہوتا ہے ۔
سارا علم کتابوں میں تو نہیں ہوتا نا  ۔۔۔ کچھ دلوں پر اترتا ہے ۔
دل بھی وہ جو الله کے نور اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی محبت سے بھرے ہوں ۔ سادہ  سے ۔ ریا سے پاک ۔۔۔۔ جو الله کے حکم کا سنتے ہی کوئی دلیل نہ مانگیں ۔۔۔
بس آمنّا اور صدّقنا کہہ دیں ۔
ارے یہ تو واقعی ہم ہر روز الله سبحانہ وتعالی سے وعدہ کرتے ہیں سونے سے پہلے ۔۔۔ اور کتنے نادان ہیں صبح ہوتے ہی سب کچھ بُھلا دیتے ہیں ۔
کیا ہم حقیقتا جانتے ہیں کہ نماز وتر ۔۔۔ دعائے قنوت الله سبحانہ تعالی سے ایک وعدہ ہے ایک معاھدہ ہے ؟
اور کیا ہم اسے پورا کرتے ہیں ؟
یا پورا کرنے کے بارے میں سوچتے ہیں ؟

Wednesday 5 April 2017

حساب کیسے ہوگا؟

ایک شاگرد نے اپنے استاد سے پوچھا: استاد جی!
یہ آخرت میں حساب کتاب کیسے ہوگا؟

استاد نے ذرا سا توقف کیا، پھر اپنی جگہ سے اُٹھے
اور سارے شاگردوں میں کچھ پیسے بانٹے
انہوں نے پہلے لڑکے کو سو درہم،
دوسرے کو پچھتر،
تیسرے کو ساٹھ،
چوتھے کو پچاس،
پانچویں کو پچیس،
چھٹے کو دس،
ساتویں کو پانچ،
اور جس لڑکے نے سوال پوچھا تھا اسے فقط ایک درہم دیا۔

لڑکے بلاشبہ استاد کی اس حرکت پر دل گرفتہ اور ملول تھا، اسے  اپنی توہین محسوس ہو رہی تھی کہ استاد نے آخر اسے سب سے کمتر اور کم مستحق کیونکر جانا؟

استاد نے مسکراتے ہوئے سب کو دیکھتے ہوئے کہا: سب لڑکوں کو چھٹی، تم سب لوگ جا کر ان پیسوں کو پورا پورا خرچ کرو، اب ہماری ملاقات ہفتے والے دن بستی کے نانبائی کے تنور پر ہوگی۔

ہفتے والے دن سارے طالبعلم نانبائی کے تنور پر پہنچ گئے، جہاں استاد پہلے سے ہی موجود سب کا انتظار کر رہا تھا۔ سب لڑکوں کے آ جانے کے بعد استاد نے انہیں بتایا کہ تم میں ہر ایک اس تنور پر چڑھ کر مجھے اپنے اپنے پیسوں کو کہاں خرچ کیا ہے کا حساب دے گا۔

پہلے والے لڑکے، جسے ایک سو درہم ملے تھے، کو دہکتے تنور کی منڈیر پر چڑھا کر استاد نے  پوچھا؛ بتاؤ، میرے دیئے ہوئے سو دہم کیسے خرچ کیئے تھے۔

جلتے تنور سے نکلتے شعلوں کی تپش اور گرم منڈیر کی حدت سے پریشان لڑکا ایک پیر رکھتا اور دوسرا اٹھاتا، خرچ کیئے ہوئے پیسوں کو یاد کرتا اور بتاتا کہ: پانچ کا گڑ لیا تھا، دس کی چائے، بیس کے انگور، پاچ درہم کی روٹیاں۔۔۔۔ اور اسی طرح باقی کے خرچے۔ لڑکے کے پاؤں حدت سے جل رہے تھے تو باقی کا جسم تنور سے نکلتے شعلوں سے جھلس رہا تھا حتیٰ کہ اتنی سی دیر میں اسے پیاس بھی لگ گئی تھی اور الفاظ بھی لڑکھڑانا شروع۔ بمشکل حساب دیکر نیچے اترا۔

اس کے بعد دوسرا لڑکا، پھر تیسرا اور پھر اسی طرح باقی لڑکے،
حتی کہ اس لڑکے کی باری آن پہنچی جسے ایک درہم ملا تھا۔

استاد نے اسے بھی کہا کہ تم بھی تنور پر چھڑھ جاؤ اور اپنا حساب دو۔ لڑکا جلدی سے تنور پر چڑھا، بغیر کسی توقف کے بولا کہ میں نے ایک درہم کی گھر کیلئے دھنیا کی گڈی خریدی تھی، اور ساتھ ہی مسکراتا ہوا نیچے اتر کر استاد کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا، جبکہ باقی کے لڑکے ابھی تک نڈھال بیٹھے اپنے پیروں پر پانی ڈال کر ٹھنڈا کر رہے تھے۔

استاد نے سب لڑکوں کو متوجہ کر کے اس لڑکے کو خاص طور پر سناتے ہوئے کہا: بچو: یہ قیامت والے دن کے حساب کتاب کا ایک چھوٹا سا منظر نامہ تھا۔ ہر انسان سے، اس کو جس قدر عطا کیا گیا، کے برابر حساب ہوگا۔

لڑکے نے استاد کو محبت سے دیکھتے ہوئے کہا کہ: آپ نے جتنا کم مجھے دیا، اس پر مجھے رشک اور آپ کی عطا پر پیار آ رہا ہے۔ تاہم اللہ تبارک و تعالیٰ کی مثال تو بہت اعلٰی و ارفع ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اپنے حساب کی شدت سے بچائے اور ہمارے ساتھ معافی اور درگزر والا معاملہ فرمائے۔ آمین

(عرب میڈیا سے لیکر آپ کے نفیس ذوق کیلئے ترجمہ کیا ہے)۔

Friday 24 February 2017

چوہادان اور انسانیت

کسان اﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﺳﮯ ﮈﺑﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﺋﮯ ۔ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮐﯿﺎ ﻻﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﭼﻮﮨﮯ ﻧﮯ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺭﺍﺥ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ۔ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﭼﯿﺰ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﭼﻮﮨﮯ ﺩﺍﻥ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺟﺎﻥ ﮨﯽ ﻧﮑﻞ ﮔﺌﯽ ﻭﮦ ﺑﮭﺎﮔﺎ ﺑﮭﺎﮔﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣُﺮﻏﯽ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ " ﮐﺴﺎﻥ ﭼﻮﮨﮯ ﺩﺍﻥ ﻻﯾﺎ ﮨﮯ ” ﻣﺮﻏﯽ ﻧﮯ ﭼﻮﮨﮯ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﻣﺴﺘﺮﺩ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ “ ﯾﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﮨﮯ ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﻧﮩﯿﮟ "

ﭼﻮﮨﺎ ﺩﻭﮌﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﺑﮑﺮﯼ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ “ ﮐﺴﺎﻥ ﭼﻮﮨﮯ ﺩﺍﻥ ﻻﯾﺎ ﮨﮯ ” ﺑﮑﺮﯼ ﻧﮯ ﭼﻮﮨﮯ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ
“ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻤﺪﺭﺩﯼ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮞ ”

ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﺣﺎﻝ ﭼﻮﮨﮯ ﻧﮯ ﮔﺎﺋﮯ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺩﻭﮨﺮﺍﯾﺎ “ ﮐﺴﺎﻥ ﭼﻮﮨﮯ ﺩﺍﻥ ﻻﯾﺎ ﮨﮯ ” ۔ ﮔﺎﺋﮯ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ” ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻟﺌﮯ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﯽ ﻣﮕﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﺗﻮ ﭼﻮﮨﮯ ﺩﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﮎ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﮭﺴﺘﯽ ” ۔ﭼﻮﮨﺎ ﺑﺪ ﺩﻝ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺳﺮ ﻟﭩﮑﺎﺋﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑِﻞ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﺮ ﮔﺮ ﭘﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﺭﮨﺎ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﮐﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﭼﻮﮨﮯ ﺩﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﻨﺲ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ

ﺍﮔﻠﯽ ﺭﺍﺕ ﮐﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ
ﮐﮍﺍﮎ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺁﺋﯽ ۔ ﮐﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﮮ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮔﺌﯽ ﮐﮧ ﭼﻮﮨﺎ ﭘﮑﮍﺍ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ۔ ﺍﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﭼﯿﺰ ﻧﮯ ﮐﺎﭦ ﻟﯿﺎ ۔ ﺩﺭﺍﺻﻞ ﭼﻮﮨﮯ ﺩﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮔﺬﺭﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺳﺎﻧﭗ ﮐﯽ ﺩﻡ ﭘﮭﻨﺲ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ ۔ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﯽ ﭼﯿﺦ ﻭ ﭘﮑﺎﺭ ﺳﻦ ﮐﺮ ﮐﺴﺎﻥ ﺩﻭﮌﺍ ﺁﯾﺎ ۔ ﺻﻮﺭﺕِ ﺣﺎﻝ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻭﮦ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﺳﮯ ﭨﯿﮑﺎ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ گیا ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﯽ ﯾﺨﻨﯽ ﭘﻼﺋﯽ ﺟﺎﺋﮯ ۔

ﮐﺴﺎﻥ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺮﻏﯽﺫﺑﺢ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﯾﺨﻨﯽ ﺑﻨﺎ ﺩﯼ ۔ ﺑﯿﻮﯼ ﯾﺨﻨﯽ ﭘﯿﺘﯽ ﺭﮨﯽ ﻣﮕﺮ ﺍﺳﮯ ﮐﺌﯽ ﺩﻥ ﺑﺨﺎﺭ ﺭﮨﺎ ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻋﻼﻟﺖ ﮐﺎ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻗﺮﯾﺒﯽ ﺭﺷﺘﮧ ﺩﺍﺭ ﻣﺰﺍﺝ ﭘﺮﺳﯽﮐﯿﻠﺌﮯ ﺁﺋﮯ ۔ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮐﺴﺎﻥ ﻧﮯ ﺑﮑﺮﯼ ﺫﺑﺢ ﮐﺮ ﮈﺍﻟﯽ ۔

ﮐﭽﮫ ﺩﻥ ﺑﻌﺪ ﮐﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﻓﻮﺕ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻟﻮﮒ ﺗﺪﻓﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺁﺋﮯ ۔ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﻼﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮐﺴﺎﻥ ﻧﮯ ﮔﺎﺋﮯ ﮐﻮ ﺫﺑﺢ ﮐﯿﺎ ﭼﻮﮨﺎ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺭﺍﺥ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﺎﺋﺖ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﺭﮨﺎ.

ﯾﺎﺩ ﺭﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﮨﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﺌﮯ ۔ ﺍﺳﯽ ﻋﻤﻞ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺍﻧﺴﺎﻧﯿﺖ ﮨﮯ ۔ ﮐﻮﻥ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﻞ ﮨﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﺲ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﯼ ﮨﻮگی.

Sunday 19 February 2017

پرواز میں کوتاہی

بہت پرانی بات ہے، ایک بادشاہ کو تحفے میں کسی نے "باز" کے دو بچے نذر کئے. وہ بڑی ہی اچھی نسل کے تھے، اور بادشاہ نے کبھی اس سے پہلے اتنے شاندار باز نہیں دیکھے تھے.

بادشاہ نے ان کی دیکھ بھال کے لئے ایک تجربہ کار آدمی کو مقرر کر دیا. جب کچھ ماہ گزر گئے تو بادشاہ نے بازوں کو دیکھنے ارادہ کیا، اور اس جگہ پہنچ گیا جہاں انہیں پالا جا رہا تھا. بادشاہ نے دیکھا کہ دونوں باز کافی بڑے ہو چکے تھے اور اب وہ پہلے سے بھی شاندار لگ رہے تھے.

بادشاہ نے بازوں کی دیکھ بھال کر رہے آدمی سے کہا، "میں انھیں پرواز کرتے دیکھنا چاہتا ہوں، آپ انہیں اڑنے کا اشارہ کریں. "اس آدمی نے ایسا ہی کیا.

اشارہ ملتے ہی دونوں باز پرواز کرنے لگے، پر جہاں ایک باز آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا تھا، وہیں دوسرا، کچھ اوپر جاکر واپس اسی ڈال پر آکر بیٹھ گیا جس سے وہ اڑا تھا.

یہ دیکھ کر، بادشاہ کو کچھ عجیب لگا.

"کیا بات ہے جہاں ایک باز اتنی اچھی پرواز بھر رہا ہے وہیں یہ دوسرا باز پرواز ہی نہیں چاہ رہا؟"، بادشاہ نے سوال کیا.

"جی حضور، اس باز کے ساتھ شروع سے یہی مسئلہ ہے، وہ اس ڈال کو چھوڑتا ہی نہیں."

بادشاہ کو دونوں ہی باز عزیز تھے، اور وہ دوسرے باز کو بھی اسی طرح پرواز کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے.

اگلے دن پوری ریاست میں اعلان کرا دیا گیا کہ جو شخص اس باز کو اونچا اڑانے میں کامیاب ہوگا اس ڈھیروں انعام دیا جائے گا.

پھر کیا تھا، ایک سے ایک ماہرین آئے اور باز کو اڑانے کی کوشش کرنے لگے، پر ہفتوں گزر جانے کے بعد بھی باز کا وہی حال تھا، وہ تھوڑا سا اڑ کر واپس ڈال پر آکر بیٹھ جاتا.

پھر ایک دن کچھ منفرد ہوا، بادشاہ نے دیکھا کہ اس کے دونوں باز آسمان میں پرواز کر رہے ہیں. انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں ہوا اور انہوں نے فوری طور پر اس شخص کا پتہ لگانے کو کہا جس نے یہ کارنامہ کر دکھایا تھا.

وہ شخص ایک کسان تھا.

اگلے دن وہ دربار میں حاضر ہوا. اس کے انعام میں طلائی کرنسیاں ملنے کے بعد بادشاہ نے کہا، "میں تم سے بہت خوش ہوں، بس آپ کو اتنا بتا کہ جو کام بڑے بڑے ودوان نہیں کر پائے وہ تمنے کیسے کر دکھایا. "

"مالک! میں تو ایک عام سا کسان ہوں، میں علم کی زیادہ باتیں نہیں جانتا، میں نے تو بس وہ ڈال کاٹ دی جس پر بیٹھنے کا باز وغیرہ ہو چکا تھا، اور جب وہ ڈال ہی نہیں رہی تو وہ بھی اپنے ساتھی کے ساتھ پرواز لگا. "

دوستوں، ہم سب سے اونچا اڑنے کے لئے ہی بنے ہیں. لیکن کئی بار ہم جو کر رہے ہوتے ہیں اس کے اتنے وغیرہ ہو جاتے ہیں کہ اپنی اونچی پرواز کرنے کی، کچھ بڑا کرنے کی قابلیت کو بھول جاتے ہیں. اگر آپ بھی سالوں سے کسی ایسے ہی کام میں لگے ہیں جو آپ صحیح potential کے مطابق نہیں ہے تو ایک بار ضرور سوچیں کہ کہیں آپ بھی اس ڈال کاٹنے کی ضرورت تو نہیں جس پر آپ بیٹھے ہوئے ہیں؟

▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬

Contact Form

Name

Email *

Message *