Pages

Tuesday 27 December 2016

دور فتن اور نجات کے قرینے

دور فتن اور نجات کے قرینے

﴿باب اول﴾

*امت مسلمہ کی موجودہ حالت کا ایک تجزیہ*

*حصہ دوئم*

*2۔علماء:*
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ہی علماء کم ہوتے چلے آرہے ہیں ۔ہر مرنے والا اپنے ساتھ علم کا ایک حصہ لے کر چلا جاتا رہا ہے۔ آج اس تعلق سے بدترین حالات کا سامنا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((فانی امرأ مقبوض والعلم سینقبض ویظھر الفتن))
’’بے شک میں بھی ایک آدمی ہوں جو اٹھالیا جاؤ ں گا اور علم بھی اٹھا لیا جائے گا اور فتنے ظاہر ہوں گے‘‘۔
(مشکوة،باب کتاب العلم:ص۳۸)
((اِنَّ اللَّہَ لَا یَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا یَنْتَزِعُہُ مِنْ الْعِبَادِ وَلَکِنْ یَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ حَتَّی اِذَا لَمْ یُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُؤ ُوسًا جُھَّالًا فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَیْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا))
”اللہ تعالی ٰ(قرآن و سنت کے) علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ لوگوں کے دلوں سے نکال لے بلکہ علم کو اس طرح اٹھایا جائے گا کہ علماء کو اٹھا لیا جائے گا یہاں تک کہ جب کوئی بھی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا پیشوا بنالیں گے، ان سے مسئلہ پوچھیں گے اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے لہٰذا وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے‘‘۔
(صحیح البخاری:ج۱ص۱۷۶رقم الحدیث۹۸)

حقیقت یہ ہے کہ علمائے وقت آج علم اور ہمت سے خالی ہوچکے ہیں اور قرآن و سنت کا اصل علم ان کے ہاں بھی پسِ پردہ چلا گیا ہے۔ الاماشاء اللہ۔ لہٰذا علم اور حمیتِ دینی کے فقدان نے ان کو حق و باطل کو کھول کر بیان کرنے سے روک دیا ہے۔ چند ہستیاں ہیں جو قرآن و سنت کے اصل علم سے واقفیت رکھتے ہیں اور وہ علم و ہمت سے خالی نہیں۔ اللہ انہیں اپنے حفظ وامان میں رکھے کیونکہ وہ اس دور فتن میں وہ منبر و محراب میں شاذ شاذ ہی نظر آئیں گے۔ انکی اکثریت یا تو جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ہے یا پھر وہ محاذوں پر اللہ کے مجاہد بندوں کے ساتھ نظر آئیں گے۔

*3۔عصری علوم کے دانشوران:*
مسلم دانشوران کی غالب اکثریت عصری علوم کی حقیقت سے واقف تو نہیں لیکن اس کے سحر میں ضرور گرفتار ہیں۔ ان کے اندر خواہشاتِ نفسانی اس قدر رچ بس گئی ہے کہ اس کی تکمیل کے لئے یہ طریقہ مقرر کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی علمی اور فکری ترقی کا واحد راستہ یہ قرار دیتے ہیں کہ زندگی کہ ہر معاملہ میں مغرب کی تقلید کی جائے۔
شاید ان تینوں فقدان کی طرف ہی اشارہ کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا:
((وعن عمرو بن عوف قال سمعت رسول اللّٰہ صلی اہلّٰ علیہ وسلم یقول انی أخاف علی أمتی من بعدی من أعمال ثلاثة قالوا ما ھن یا رسول اللّٰہ قال زلة العالم وحکم جائر وھوی متبع))
’’حضرت عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اپنے بعد اپنی امت پر تین اعمال صادر ہونے کا خوف ہے۔ لوگوں نے پوچھا وہ کیا ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عالم کا راہِ حق سے پھسلنا اور ظالم حکمران اور خواہشاتِ نفسانی کی پیروکاری‘‘۔
( الطبرانی،مجمع الزوائدج:۵ص:۲۳۹،وفیہ کثیر بن عبد اللّٰہ المزنی وھو ضعیف وبقیة رجالہ ثقات)
((انی أخاف علی أمتی من ثلاث من زلة عالم ومن ھوی متبع ومن حکم جائر))
’’مجھے اپنی امت پر تین باتوں کا خوف ہے۔ عالم کا پھسلنا اور خواہشاتِ نفسانی کی پیروکاری اور ظالم حکمران ‘‘۔
(مسند بزار،مجمع الزوائدج:۱ص:۱۶۵)

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔

بشکریہ: "صوت القرآن"

@IslamiFikr
Telegram Channel

___________________________________

: ⚫️دور فتن اور نجات کے قرینے

﴿باب دوم ﴾

▪️معرکہ کے دو فریق

حصہ سوئم

2۔دجال اکبرکا کردار :

ابلیس کا سب سے مہیب ترین ہتھیار ’’دجال اکبر‘‘ ہے اور جب ہم اس معرکہ میں ’’دجال اکبر‘‘ کے وجود کی بات کرتے ہیں تو سب سے پہلے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دجال اکبر کا وجود کب سے ہے؟آیا وہ مقید ہے یا آزاد؟ اگر مقید ہے تو کہاں ہے؟ اور اگر آزاد ہے تو اس وقت کہاں ہے اور اس کا اس وقت کردار کیا ہے؟ سب سے پہلے تو یہ بات احادیث مبارکہ سے صراحتاً ثابت ہے کہ سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو اس سے ڈرایا اور اس کے بعد ہر نبی نے اس کے فتنے سے اپنی قوم کو ڈرایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((وَانِّی أَنْذَرْتُکُمْ بِہِ کَمَا أَنْذَرَ بِہِ نُوحٌ قَوْمَہُ))
’’میں نے تمہیں دجال سے اسی طرح ڈرایا جس طرح حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو ڈرایاتھا‘‘۔
(مسلم: ج۴ص۲۲۵۰، رقم الحدیث ۲۹۳۶)
((اِنَّہُ لَمْ یَکُنْ نَبِیٌّ بَعْدَ نُوحٍ الَّا قَدْ أَنْذَرَ الدَّجَّالَ قَوْمَہُ وَاِنِّی أُنْذِرُکُمُوہُ))
’’حضرت نوح علیہ السلام کے بعد جو نبی بھی آیا اس نے اپنی قوم کو دجال سے ڈرایا ہے اور میں بھی تمہیں اس سے ڈراتا ہوں‘‘۔
( ترمذی ج۸ص۱۸۰رقم الحدیث۲۱۶۰۔۲۲۳۴، ابوداؤدج۲۱ص۳۷۲رقم الحدیث۴۱۹۲)

تو کیا دجال اس وقت کہیں مقید ہے یا وہ آزاد کر دیا گیا ہے اور اس کا اس زمین پر رہنے والوں سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق اور رابطہ ہے یا دنیا کے معاملات میں اس کا کچھ عمل دخل ہوگیا ہے؟
احادیث مبارکہ سے تو یہ بات واضح طور پر ملتی ہے کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں وہ کہیں بے آباد اور نامعلوم جزیرے پر مقید تھا۔ احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ تمیم داری جب ایک سمندری سفر پر تھے تو ان کی کشتی ایک مہینہ تک بھٹکتی رہی اور بالآخر ایک ویران جزیرے پر ان کی دجال سے ملاقات ہوئی جو کہ مضبوطی سے بندھا ہوا تھا یعنی مقید تھا اور پھر خود دجال کے الفاظ حدیث میں یوں ملتے ہیں:
((وَاِنِّی مُخْبِرُکُمْ عَنِّی اِنِّی أَنَا الْمَسِیحُ وَانِّی أُوشِکُ أَنْ یُؤْذَنَ لِی فِی الْخُرُوجِ فَأَخْرُجَ فَأَسِیر فِی الۡأَرْضِ))
’’اب میں تمہیں اپنے متعلق بتاتا ہوں، میں مسیح دجال ہوں، عنقریب مجھے خروج کی اجازت مل جائے گی (یعنی آزاد کردیا جاؤں گا) اور میں نکل کر پوری زمین پر گھوموں گا‘‘۔
(صحیح مسلم ج۱۴ص۱۷۸رقم الحدیث۵۲۳۵)
ابن ماجہ کی روایت میں دجال کے یہ الفاظ ملتے ہیں:
((قَالَ لَوْ انْفَلَتُّ مِنْ وَثَاقِی ھَذَا لَمْ أَدَعْ أَرْضًا اِلَّا وَطِئْتُھَا بِرِجْلَیَّ ھَاتَیْنِ))
’’دجال نے کہا کہ جوں ہی میں اس اسیری سے اور قید سے رہائی پاؤں گا، پوری دنیا کو اپنے دونوں پاؤں سے روند ڈالوں گا‘‘۔
(سنن ابن ماجہ: ج۱۲ص۱۹، رقم الحدیث: ۴۰۶۴)
لیکن قرب قیامت اپنے خروج سے پہلے اس کو ایک آزاد حیثیت مل جائے گی بلکہ عالمی معاملات میں اس کا عمل دخل اس قدر بڑھ جائے گا کہ وہ اپنے خروجِ اصلی سے پہلے ایک بڑے علاقے پر بظاہر ایک منصف اور مسلمانوں کے ہمدرد اور غمخوار کے روپ میں حکمرانی کرے گا۔ لوگ نہ صرف اس کو پسند کرنے لگے گے بلکہ اس کی کلی اتباع بھی کر بیٹھیں گے۔
((الھیثم بن مالک الطائی رفع الحدیث قال یلی الدجال بالعراق سنتین یحمد فیھا عدلہ وتشرأب الناس الیہ فیصعد یوما المنبر فیخطب بھا ثم یقبل علیھم فیقول لھم ما آن لکم أن تعرفوا ربکم ؟ فیقول لہ قائل ومن ربنا ؟ فیقول أنا))
’’ہیثم بن مالک مرفوعاً روایت کرتے ہیں فرمایا: دجال (اپنی خدائی کے دعوے سے پہلے) دو سال تک عراق پر حکومت کرے گا، جس میں اس کے (نام نہاد) انصاف کی تعریف کی جائے گی اور لوگ اس کی طرف کھنچے چلے آئیں گے۔ پھر وہ ایک دن منبر پر چڑھے گا اور عراق کے بارے میں تقریر کرے گا۔ پھر لوگوں کے سامنے آئے گا اور ان سے کہے گا کہ کیا اب وقت نہیں آیا کہ تم اپنے رب کو پہچان لو؟اس پر ایک شخص کہے گا، اور ہمارا رب کون ہے؟ تو دجال جواب دے گا، میں‘‘۔
(الفتن نعیم بن حماد: ج۱ص۳۲۸)
((الدجال لیس بہ خفاء، انہ یجیٔ من قبل المشرق، فیدعواالی حق فیتبع))
’’دجال کے معاملے میں کوئی پوشیدگی نہیں کہ وہ مشرق کی طرف سے آئے گا، ابتداء میں لوگوں کو حق کی دعوت دے گا اور لوگ اس کی اتباع کرنے لگیں گے‘‘۔
(الطبرانی کذا فی النھایة: ج۱ص۶۰)
کیا یہ وقت آن پہنچا ہے؟ اہل علم کو اس بات کی طرف توجہ کرنی چاہیے!

☄نوٹ: فریق اول کے اہم کردار وں کا کچھ احوال آئندہ کے ابواب میں مختلف عنوانات کے تحت آئے گا۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ: "صوت القرآن"

@IslamiFikr
Telegram Channel

No comments:

Post a Comment

Contact Form

Name

Email *

Message *