Pages

Tuesday 27 December 2016

اردو زبان اور دور جدید

بیسویں صدی کے آخری چند سالوں اور اکیسویں صدی کے آغاز میں دنیا بھر میں مواصلاتی ٹیکنالوجی یعنی کمپیوٹر، ٹیلی فون اور ٹیلی ویژن وغیرہ نے بہت تیز رفتاری سے ترقی کی ہے اور اس کے پھیلاؤ کی یہ رفتار مسلسل جاری ہے۔ اس انقلابی تبدیلی سے دنیا بھر میں انسانی معاشروں پر جو مثبت اور منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، اُن کا احاطہ کرنا تو ممکن نہیں اور شاید اس کے صحیح اِدراک کی کوشش ابھی قبل از وقت ہو۔ مواصلاتی نظام کی ترقی کا مثبت پہلو تو یہ ہے کہ دنیا کے نہایت ہی پسماندہ خطوں میں ٹیلی ویژن اور موبائل فون یا برقیاتی ڈاک (ای میل) کے ذریعے ہفتوں اور دنوں میں ہونے والے رابطے اب چند لمحوں میں ہو جاتے ہیں۔ ان تیز رفتار رابطوں کی وجہ سے سماجی میل جول، سیاسی تعلقات، تجارتی لین دین حتیٰ کہ سیکڑوں میل دور سے مریضوں کا علاج یا پیچیدہ جراحی عمل (آپریشن) تک ممکن ہو گئے ہیں۔ دیگر بے شمار فوائد بھی ہیں لیکن وہ ہمارے اس موضوع کا حصہ نہیں۔

اسی طرح بہت سے معلوم یا نامعلوم منفی اثرات بھی ہیں۔ یہاں اپنے موضوع کی نسبت سے صرف چند ایک کا ذکر ہی کیا جائے گا۔

ٹیکنالوجی کی اس تیز رفتار ترقی کی وجہ سے دنیا ایک گلوبل ویلیج یا عالمی گاؤں بن گئی۔ گاؤں کے نمبردار صاحب اپنے چوبارے میں بیٹھ کر ہر گھر اور ہر فرد پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ کہیں کوئی دو پڑوسی، کسی گھر میں میاں بیوی یا ساس بہو آپس میں ذرا ایک دوسرے سے گلہ مند ہو جائیں تو نمبردار صاحب فوراً فیصلہ کرنے وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ موصوف بوٹی کے مسلسل دو غیر مساوی ٹکڑے کرتے کرتے سارا گوشت خود نگل جاتے ہیں اور آخر میں اپنا قیمتی وقت ضائع کرنے پر دونوں فریقوں سے اچھی خاصی فیس بھی وصول کرتے ہیں اور باری باری درگت بھی بناتے ہیں۔ اس پر بھی دونوں فریق کہتے ہیں کہ زہے نصیب! چودھری صاحب ہمارے غریب خانے پر بھی تشریف تو لائے۔ ع

کبھی ہم ان کو، کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

گھر کا انتظام نمبردار صاحب خود سنبھال لیتے ہیں اور اس کے بعد جس طرح شاہجہاں تاج محل کو صرف دیکھنے کا اختیار ہی رکھتے تھے، اُسی طرح گاؤں کے غریب ہاری اپنے اپنے گھروں کو صرف دیکھ دیکھ کر ہی جیتے ہیں۔

مواصلاتی نظام کی اس برق رفتاری کی وجہ سے دنیا کے مختلف معاشروں میں سیاسی، تجارتی اور سماجی تبدیلیاں ایک فطری امر ہے۔ اس کا اثر خاندانی اور عائلی زندگی پر بہت گہرا ہے۔ مثلاً آج کل شاید دنیا بھر میں بہت سے افراد کمپیوٹر، ٹیلی ویژن اور ٹیلی فون پر جتنا وقت صَرف کرتے ہیں، اُس سے کہیں کم وقت اپنے گھر کے افراد، دوستوں یا پڑوسیوں سے براہ راست بات چیت یا تبادلۂ خیالات یا کسی دوسری مشترکہ دلچسپی میں صَرف کرتے ہوں گے۔ اس سے آپس کے تعلقات میں محبت، بے تکلفی یا احترام و شفقت کے جذبات کی جگہ ایک خارجی میکانیت سی آتی جا رہی ہے۔ رکھ رکھاؤ اور تہذیبی اَقدار عنقا ہوتی جا رہی ہیں۔

ہے کہانی نرسری سے ہوم تک
گھر میں اب دادی نہیں، پوتا نہیں

اسی تیز رفتاری کے زیرِ اثر دنیا بھر کی زبانیں بھی تبدیلیوں کی زد میں ہیں۔ زبان دراصل اس بس یا ٹرین کی طرح ہوتی ہے جس پر تھوڑے فاصلے کے بعد مسافر سوار ہوتے یا اترتے رہتے ہیں۔ یعنی معاشرے میں نئے خیالات و افکار یا نظریات، سیاسی تبدیلیوں، کاروباری ضروریات، مختلف ایجادات اور ان کے استعمال کے ساتھ ساتھ نئے نئے الفاظ زبان میں داخل ہوتے رہتے ہیں، اسی طرح ان تبدیلیوں کے سبب رفتہ رفتہ بعض الفاظ کا استعمال کم ہوتے ہوتے بالکل ختم ہو جاتا ہے اور وہ متروک و نامانوس قرار دے دیے جاتے ہیں۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے اردو زبان کس طرح اِن تبدیلیوں کی زد میں ہے اور ان تبدیلیوں کے اچھے اور برے کیا نتائج برآمد ہو رہے ہیں یا مستقبل میں ہو سکتے ہیں۔

زبان کی صحت پر نظر رکھنے والے اکثر اہلِ علم میں پچھلے چند سالوں سے یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ اُردو زبان میں اس قدر نامانوس طریقوں اور تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے جس سے نہ صرف اس کا حُسن متاثر ہو رہا ہے بلکہ یہ انحطاط اور تنزل کی طرف بڑھ رہی ہے۔

جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ مواصلاتی ٹیکنالوجی نے زندگی کے ہر شعبہ کو تیز رفتار اور آسان بنا دیا ہے۔ اردو زبان بھی کم و بیش دیگر شعبوں کی طرح متاثر ہوئی ہے۔ کمپیوٹر کے استعمال نے انفارمیشن (آگاہی یا معلومات) کی ترسیل اور پھیلاؤ کے عمل کو تیز اور آسان کر کے انسان کو تن آسان بنا دیا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب انسان محنت سے جی چرانے لگا ہے یا اس کے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ وہ معلومات کو چھان پھٹک کر خود کوئی تجزیہ کرے اور ان کے اسباب و علل تک رسائی حاصل کر سکے اور ان سے کوئی گہری علمی بصیرت اخذ کرے۔ معلومات کا دریا اس طرح طغیانیوں پر ہے کہ اب اس میں سے صاف پانی یعنی کسی ٹھوس علمی حقیقت کا پیالہ بھر حصول مشکل ہو گیا ہے۔

تیز رفتاری کا یہ عمل زبان پر اس طرح اثر انداز ہوا کہ ذرائع ابلاغ ریڈیو اور بالخصوص ٹیلی ویژن کے دن رات چلنے والے پروگراموں میں بولی جانے والی زبان تقریباً بازاری زبان ہو کر رہ گئی ہے۔ کسی زمانے میں کم پڑھے لکھے لوگ ریڈیو کی خبروں سے اپنے تلفظ اور لہجے کو بہتر بنانے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر خبریں پڑھنے والوں یا دوسرے پیش کاروں کو عام طور پر اس سلسلے میں خصوصی تربیت دی جاتی تھی۔ اب صورت حال بدل چکی ہے۔ ان ذرائع ابلاغ سے نشر ہونے والی زبان کا معیار درمیانے درجے کے پڑھے لکھے فرد سے بھی کم تر ہے۔ انگریزی کے ایسے الفاظ کی بھرمار کی جاتی ہے جن کے اردو میں بہت ہی آسان مترادف الفاظ موجود اور رائج ہوتے ہیں۔ جس کا واضح مطلب یہ ہوتا ہے کہ بولنے والے کچھ سوچے سمجھے بغیر زبان کی قینچی چلا رہے ہیں۔ ورنہ اگر کچھ سوچ سمجھ کر بول رہے ہوں تو ان کے ذہنوں میں انگریزی الفاظ کے اردو مترادفات بھی آ سکتے ہیں جنھیں سامعین یا ناظرین کی اکثریت اچھی طرح سمجھ سکتی ہے۔ ٹیلی ویژن والوں کے پیش نظر پیش کار کے تلفظ یا زبان کے دوسرے قواعد کے بجائے اس کی کارکردگی (پرفارمنس) یا اداکاری ہوتی ہے۔ اس کا باتونی اور حاضر دماغ ہونا اوّلیت رکھتا ہے۔ پیش کار کے چہرے یا لب و رخسار پر غازہ دکھائی دینا ضروری ہے، چاہے یہ غازہ بولے جانے والے الفاظ اور معانی کا خون کر کے ہی حاصل ہو۔ وہاں گلیمر اہم اور گریمر غیر ضروری ہے۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کے اکثر حصوں میں مادری زبان کی ترکیب موجود ہونے کے باوجود اب عملاً مادری زبانیں ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔ بچے کی زبان ماں کے بجائے ذرائع ابلاغ مثلاً ٹیلی ویژن، ویڈیو گیم اور کمپیوٹر کے زیرِ اثر پروان چڑھتی ہے۔ اب پانچ سال کی عمر تک کے اکثر بچے اپنی ماں (یا گھر کے دوسرے افراد) سے کم اور ٹیلی ویژن، ویڈیو گیم اور کمپیوٹر کے ذریعے دیکھے جانے، فلمی اور کارٹون کرداروں سے زیادہ الفاظ، یا کم از کم ان کا تلفظ اور لب و لہجہ اپنے ذہنوں میں ذخیرہ کرتے ہیں۔ ایک فرد سے لے کر ساری کائنات تک، ہر چیز کو کاروباری نظر سے دیکھنے والے اس کے بہت سے فائدے بیان کر سکتے ہیں لیکن بچے اور والدین (یا خاندان) کے تعلق میں جذباتی کم اور کھوکھلے پن کا نقصان بہت واضح ہے۔ ممتا بھرے جذبات میں ماں کے منہ سے نکلنے والے الفاظ جب پہلی بار بچے کے کانوں سے ٹکراتے ہیں تو نہ جانے لطیف احساسات کی کتنی مٹھاس اس کے کانوں میں رس گھولتی ہوگی۔ اور پھر اپنی توتلی زبان میں جب بچہ ایک ایک لفظ کی نقل اتارتا ہے تو گویا اپنی فطری معصومیت کے خزانے لٹا رہا ہوتا ہے۔ اگر نقل اتارتے وقت تلفظ یا لہجے میں کچھ رد و بدل ہو جائے تو ماں اس کی معصومیت سے محظوظ ہوتی ہے اور اگر قریب قریب تلفظ ادا کر لے تو ماں کو یوں محسوس ہوتا ہے گویا بچے نے فطرت کے ایک بہت بڑے راز کو پا لیا ہے۔

بچے کو سننے، سیکھنے اور نقل اتارنے یا بولنے کا عمل محض میکانکی ہی نہیں بلکہ جانبین کے درمیان جذبات و احساسات کا بھی ایک ناقابلِ بیان تبادلہ ہوتا ہے۔ الفاظ کا صوتی لف و نشر ہی نہیں بلکہ جہانِ معانی بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے۔ تخیل اور تصوّر کے کئی نئے بیج ذہن کی کھیتی میں بوئے جا رہے ہوتے ہیں جو بعد کی زندگی میں نشوونما پا کر قوتِ اظہار کے ذریعے زبان کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ وہ لفظ یا ماں کا لب و لہجہ نہ صرف اس کے ذہن کی کسی تختی پر ثبت ہو جاتاہے بلکہ وہاں سے وہ ایک بیج کی طرح پھلتا پھولتا ہے۔ اس کی حلاوت وہ عمر بھر اپنی زبان پر محسوس کر سکتا ہے۔ اس کے معانی اس کے رگ و ریشہ میں شامل ہو جاتے ہیں۔

خاندان کے افراد، اڑوس پڑوس یا گلی محلے میں غیر رسمی سماجی میل جول میں کمی کی وجہ سے اب بڑی بوڑھیوں کی زبانوں سے کہاوتیں، محاورے اور چھوٹے چھوٹے دلچسپ قصے نئی نسلوں کو منتقل نہیں ہو رہے۔ ظاہر ہے کہ آفاقی سچائیوں اور حکمت و دانش سے بھرپور یہ چھوٹے چھوٹے ادب پارے اپنی اپنی مادری اور علاقائی زبانوں یا لہجوں میں صوتی و معنوی حسن کے ساتھ نسل در نسل منتقل ہونے کی وجہ سے ہی کوئی خاص تہذیب نشوونما پاتی ہے۔ اسی طرح کسی زبان میں رائج کوسنوں، طعنوں اور پھبتیوں کے مخصوص الفاظ اگرچہ اخلاقی لحاظ سے ناشائستگی کی ذیل میں آتے ہیں لیکن ان کی کاٹ اور اثر سے کسی کو انکار نہیں۔

کچھ عرصہ سے ٹیلی ویژن کی دیکھا دیکھی اردو اخبارات میں بھی بڑے بڑے بھاری بھرکم اور اوسط علمی استعداد کے فرد کے فہم سے بالاتر انگریزی الفاظ بلاتکلف ٹھونسے جا رہے ہیں۔ انگریزی خبروں کے متن کا اردو ترجمہ کرتے وقت مترجم لمحہ بھر سوچنے کی زحمت نہیں کرتا اور آسان الفاظ کا ترجمہ کر کے مشکل لفظ کو جوں کا توں چھوڑ دیتا ہے۔ ستم یہ کہ ان غیر ترجمہ شدہ الفاظ کو اردو رسم الخط میں لکھنے کے بجائے رواں اردو جملے کے درمیان انگریزی حروف میں ہی لکھا جاتا ہے۔ یہ قباحت روزانہ اخبارات سے نکل کر ماہانہ جرائد اور رسالوں کی محنت سے لکھی جانے والی علمی کتابوں میں بھی در آئی ہے۔ شعرا انگریزی عنوانات انگریزی حروف میں لکھ کر نیچے اردو میں شاعری فرما رہے ہیں۔ اگر آپ کو کسی نظم کا مرکزی خیال انگریزی زبان میں سوجھا ہے تو براہ کرم تھوڑی سی محنت بھی کیجیے اور ساری نظم انگریزی میں ہی لکھ دیجیے۔ ورنہ تھوڑی سی انکساری سے کام لے کر عنوان کا کوئی اچھا سا ترجمہ کر دیجیے یا کم از کم اسے اردو رسم الخط میں تو لکھیے۔ اتنا احساسِ کم تری بھی کیا؟ شکایت یہ ہے کہ قاری غائب ہو گیا۔ آپ بھی تو قاری پر کچھ رحم کیجیے اور ایک زبان کے قاری کو بیک وقت ایک رسم الخط سے نباہ کرنے دیجیے۔ اگر تو قاری پر اپنی علمیت یا انگریزی دانی کا رعب ڈالنا مقصود ہے تو شاید آپ کا شوق پورا ہو رہا ہو گا اور اگر مقصد قاری کو۔۔۔ دل نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔۔۔ کی لذت بخش کیفیت سے دوچار کر کے کسی اعلیٰ سوچ، اخلاقی اصلاح یا سماجی ترقی کی طرف راغب کرنا ہے تو پھر زبان کو سادہ اور سلیس بنائیے اور اسے بیک وقت صرف ایک ہی رسم الخط میں مستند ہجوں اور املا میں لکھیے۔ قاری اکثر وہی تحریر پڑھتا ہے جسے پڑھ کر اسے یہ احساس ہو کہ مصنف جو کچھ بیان کر رہا ہے وہ میری سوچ یا احساس کے قریب تر ہے البتہ میں اس طرح کے اظہار پر قدرت نہیں رکھتا۔

مختلف زبانوں کے الفاظ آپس میں ایک دوسری زبان میں منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ اردو زبان بھی کئی زبانوں کے الفاظ کا ایک خوش نما مرقع ہے۔ اس کے الگ تشخص اور پہچان کی وجہ اس کا الگ رسم الخط ہے، جو اگرچہ عربی اور فارسی سے لیا گیا ہے لیکن ان دو زبانوں میں برصغیر پاک و ہند کی مقامی بولیوں کے حروف کا اضافہ کر کے ایک الگ رسم الخط وجود میں آیا ہے، جس سے اردو کی انفرادیت قائم ہوئی ہے۔ ورنہ کہا جاسکتا ہے کہ وسط ایشیا کی مسلمان قوموں اور پاک و ہند کی اقوام نے اپنی سیاسی اور کاروباری سہولتوں کے لیے ایک دوسرے کے الفاظ کو اپنا لیا اور کہیں کہیں اپنے اصلی لب و لہجہ میں کچھ تبدیلیاں کر لیں تو قدیم زبان سے الگ تھلگ ایک بولی وجود میں آگئی۔ ان عربی، فارسی، ہندی اور انگریزی الفاظ کو ان میں سے کسی بھی قدیم زبان کے حروف میں لکھنا ممکن نہیں تھا۔

موجودہ دور میں دیونا گری رسم الخط میں لکھی جانے والی زبان کو ہندی اور فارسی رسم الخط والی زبان کو اردو کہا جاتا ہے۔ کم و بیش پچاسی فی صد الفاظ کے اشتراک کے باوجود دو مختلف رسم الخط ہونے کی وجہ سے یہ دو زبانیں قرار پائی ہیں۔ اب نہ جانے ایک ہی زبان (اردو) کو بیک وقت اردو اور انگریزی حروف میں لکھ کر اسے کس قسم کی ترقی کی راہ پر ڈالا جا رہا ہے۔ ہاتھ سے کتابت کرنے والے اکثر خود بھی حرف شناس ہوا کرتے تھے اور پھر مسلسل مشق اور تجربے کی وجہ سے ان کے ہاں ہجوں اور املا کی غلطی کا امکان بہت کم ہوتا تھا۔ اب کمپیوٹر کے تختۂ حروف (Key board) پر انگلیاں چلانے والے جب دھڑا دھڑ اردو الفاظ کے غلط ہجے لکھ رہے ہیں تو ان سے انگریزی کے صحیح ہجوں کی توقع بالکل عبَث ہے۔ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر کوئی انگریزی لفظ ایک صفحہ پر تین بار لکھا گیا ہو تو وہ تین مختلف ہجوں میں ہو گا۔

برصغیر پاک و ہند میں بہت سی علاقائی زبانیں بھی ہیں جن کے الفاظ اردو میں مستعمل ہیں یا ہو سکتے ہیں۔ ان زبانوں کا اپنا اپنا رسم الخط بھی ہے۔ اگر کوئی لکھنے والا کسی مخصوص زبان کے علاقے کی تاریخ و تہذیب یا وہاں کی سیر و سیاحت کے بارے میں اردو زبان میں کچھ لکھے تو فطری امر ہے کہ وہ حسبِ ضرورت کچھ علاقائی الفاظ یا اصطلاحیں بھی استعمال کرے گا۔ اس طرح اگر ہر خطہ یا زبان کے الفاظ کو اردو میں لکھتے وقت انھیں اپنے علاقائی رسم الخط میں لکھا جائے تو پھر اردو کے پاس اپنا کیا رہ جائے گا؟ اگر جاپانی اور چینی مصنوعات کے نام اردو حروف میں لکھنے کے بجائے اردو جملہ میں بھی ان کے اصل (جاپانی یا چینی) حروف میں لکھ دیے جائیں، روس کی سیاحت کے بعد کوئی صاحب وہاں کے شہروں یا لوگوں کے نام روسی حروف میں لکھ کر اردو زبان میں ایک اور سفرنامے کا اضافہ کرنے کا شوق پورا کر لیں تو کیا یہ اردو قارئین پر ظلم نہیں ہو گا۔ ایسی صورت میں وہ کون علامہ ہو گا جو زبان دانی کا دعویٰ کر سکے گا۔

No comments:

Post a Comment

Contact Form

Name

Email *

Message *