Pages

Tuesday 3 January 2017

رزق کی خاطر

تنقید برائے اصلاح

از قلم✍ امتیاز کمال

  ایک شخص جہاز میں بوجھ ڈوھونے  کا کام کیا کرتا تھا اسے روز کی محنت کے بعد 10 روپیہ ملا کرتا تھا. ایک دن اس نے سوچا کہ آج کچھ بھی ھو جائے میں دس روپیے سے زیادہ کماؤ گا اگر دس روپیے کا کام ھوا تو اسے ندی میں پھینک دونگا اس دن اس نے خوب محنت سے کام کیا مگر جب اجرت ملی وہی دس روپیہ اس نےدل میں ٹھان لی کہ آج بھوکا سوجاؤ گا مگر دس روپیہ گھر لے کے نہیں جاؤنگا یہ ارادہ کرکے وہ سمندر کے قریب پہنچا.. وہ پیسے پھینکنے ہی والا تھا کہ ایک شخص وہاں بیٹھا ھوا تھا جو کے غوطہ خور تھا اس نے پوچھا کیا بات ھے بھائی آپ کیوں اداس ھو کیا وجہ ھے اس شخص نے اپنی دستان سنائی غوطہ خور بولا آپ یہ دس روپیہ مجھے دے دو میں تین غوطے لگاؤ گا اگر ہر غوطے پر جو کچھ بھی مل گیا وہ آپ کا. اس پر بوجھ ڈوھونے والا شخص تیار ھو گیا غوطہ خور نے پہلا غوطہ لگایا پر ہاتھ خالی نکلا دوسرے غوطے میں بھی یہی ھوا پر تیسرے غوطے پر اس کے ہاتھ میں ایک سیپ آئی جو اس نے وعدے کے مطابق اس شخص کو دے دی اور وہ سیپ لے کر چل پڑا. جویری کو سیپ بتایا تو جوہری نے کہا یہ سیپ بہت قیمتی ھے میں اس کی قیمت ادا نہیں کر سکتا یہ سیپ تم وقت کے بادشاہ کے پاس لے جاؤ وہ شاید قیمت ادا کردے وہ شخص سیپ لے کے بادشاہ کے دربار میں پہنچا اور سیپ بادشاہ کو دی بادشاہ نے بڑے غور سے سیپ کا معائنہ کیا اور کہا کہ اس کی قیمت یہ ھے کہ تم صبح سے شام تک جتنے ہیرے جواہرات لے جا سکوں وہ تہمارا اس شخص کو بادشاہ کے خزانے والے کمرے میں چھوڑ دیا گیا بوجھ ڈوھونے والے شخص نے زندگی میں پہلی مرتبہ اتنا خزانہ دیکھا تھا جسے دیکھ کروہ ایسا کھو گیا کہ اسے پتہ بھی نہیں چلا کے کب صبح سے شام ھو گئی فوجیوں نے جب اسے آکے کہا کے تہمارا وقت ختم ھو گیا خزانہ بٹورنے کا تو اسے ہوش آیا جب اسے فوجی کھینچ کے لے جانے لگے تو اس نے خزانے میں ہاتھ مارا تو اس کے ہاتھ میں کچھ پیسے آ گئیےجب وہ باہر نکل کر اپنی بند مٹھی کھولا تو اسے وہی دس  روپیہ ملا.

اس کہانی سے ہم کو جو سبق ملا وہ یہ ھے کہ انسان چاھے کتنا بھی چاہ لے کہ آج وہ اِتنا کمائے گا اُتنا کمائے گا مگر میرے اللہ نے جن کے مقدر میں جِتنا لکھا ھے اتنا ہی ملے گا    .مگر آج ہمارے معاشرے میں لوگ روپیہ کمانے کے لیے بھائی کو دھوکہ بہن کو دھوکہ جھوٹ مکاری چالاکی عیاری ہر اس حربے کا استعمال کرتے ھے مگر ان کو نہیں پتا کے یہ رزق جس کو پانے کے لیے انھونے ہر رشتوں کو شرمسار کیا ھے اگر وہ عزت اور حلال طریقوں سے کماتے تو بھی ان کو ملتا مگر ہائے افسوس اس کو حرام کر کھایا اور دنیاو آخرت دونوں خراب کی.  آج ہمارے شہر کا یہ المیہ ھے کہ گھر میں بوڑھے ماں باپ کی جنہوں نے کبھی خدمت نہیں کی کبھی اپنے ماں باپ کے پاس بیٹھنے کا وقت نہیں نکالا  وہ رات رات بھر وہ لیڈروں کی چمچہ گیری کرتے نہیں تھکتے جن کے پاس کرسی ھوتے ھوئے بھی دولت ھوتے ھوئے بھی کبھی سکون نہیں ملا ان کے ذریعے دولت کما کر سکون پانا چاہتے ہیں جب کے سکون حلال کمائی اور ماں باپ کی خدمت میں ھے.
آج یہ اپنے حرام خور لیڈروں سے گالی سننا فخر سمجھتے ہیں اپنے ماں باپ کی ایک بات پر کان بھی نہیں دھرتے اور سمجھتے ھے کے سیاست میں ان کی داد رسی ھو گی پوزیشن بڑھے گی شہر میں وجود ثابت ھو گا چار لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھیں گے  وہ اپنی دنیا اور آخرت پوری طرح سے خراب کر رھے ہیں چار دن کی دنیا کے لیے اتنے دھوکے فریب مکاری عیاری ماں باپ کی نافرمانی حرام خوری چاپلوسی دھوکہ دھڑی  ان سب سے کچھ حاصل نہیں ھوگا صرف اپنی قبر میں سانپ اور بچھو بھر رھے ھے یہ لوگ. دنیا فانی ھے پر آج ان سب چیزوں کو میرے شہر کے مسلمان بھائی بری طریقے سے بھول چکے ھے دوستی وفاداری ایثار محبت قربانی جو کہ ہمیں ہمارے نبی پاک(صلی اللہ علیہ وصلم) نے وراثت میں دی ھے اس کو یکسر فراموش کرچکے ھے آج اپنے مفاد کے بغیر کوئی کسی کی تکلیف پوچھنے والا نہیں ھے پہلے ایک دوست اگر اسے معاشی یا کسی بھی قسم کی تکلیف ھوتی تھی تو وہ جب تک اپنے دوست کی معاشی طور سے مدد نہیں کردیتے سکون نہیں پاتا تھا مگر آج ان سیاسی آقاؤں کی سنگت نے ان کے دل مردہ کردیے ہیں یہ ان کے ساتھ رہنا گھومنا کھانا عزت سمجھتے ھے .کیا یہ ھے معیار عزت داری کا کیا ایسی تعلیم دیے تھے ہمارے نبی نے ہم کو. خدا کے واسطے ان حرام خوروں کی چاپلوسی کرنا چھوڑوں اپنے تھوڑے رزق جو حلال کا ھے اس پر شکر اور صبر کرنا سیکھوں جو حرام کا پیسہ کما کر تم حج اور عمرہ کرنا چاہتے ھو. اور آخرت خراب کررھے ھو اگر یہی محنت اور لگن سے اپنے ماں باپ کی خدمت کرلو گے تو کئی مقبول حج اور عمرے کا ثواب کما لو گے مقبول یعنی قبولیت کے ساتھ مگر ہائے رے افسوس اس گندی سیاست کو اپنی چاپلوسی مکاری حرام خوری کو ترقی سمجھتے ھو اللہ کے واسطے ایسے حرام خور لیڈروں کی چاپلوسی کرنا چھوڑ کر اپنے بوڑھے ماں باپ کا خیال رکھو جن کی خدمت سے دنیا اور جنت دونوں تہمارے قدموں میں ھوگی  مگر یہ عقل کے اندھے  سیاسی آقاؤں کے تلوے چاٹنے میں فخر محسوس کرتے...

No comments:

Post a Comment

Contact Form

Name

Email *

Message *