Pages

Monday 9 January 2017

قصہ عتبہ بن ربیعہ کا !

🌿سورۂ حٰم السجدہ: آیت۱🌿

💫بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم💫

عتبہ بن ربیعہ جو قریش کا بڑا سردار مانا جاتا تھا، ایک دن قریش کی ایک جماعت کے ساتھ مسجد حرام میں بیٹھا ہوا تھا۔ دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے گوشہ میں اکیلے بیٹھے تھے۔

عتبہ نے اپنی قوم سے کہا کہ اگر آپ لوگوں کی رائے ہو تو میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گفتگو کروں اور ان کے سامنے کچھ ترغیب کی چیزیں پیش کروں کہ اگر وہ ان میں سے کسی کو قبول کرلیں تو ہم وہ چیزیں انہیں دیدیں تاکہ وہ ہمارے دین و مذہب کے خلاف تبلیغ کرنا چھوڑ دیں۔

یہ اس وقت کا واقعہ ہے جبکہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہوچکے تھے اور مسلمانوں کی قوت روربروز بڑھ رہی تھی۔

عتبہ کی پوری قوم نے بیک زبان کہا کہ اے ابو الولید( یہ اس کی کنیت ہے) ضرور ایسا کریں اور ان سے گفتگو کرلیں۔

عتبہ اپنی جگہ سے اٹھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ گفتگو شروع کی کہ اے ہمارے بھتیجے آپ کو معلوم ہے کہ ہماری قوم قریش میں آپ کو ایک مقام بلند نسبت اور شرافت کا حاصل ہے۔ آپ کا خاندان وسیع اور ہم سب کے نزدیک مکرم و محترم ہے۔

مگر آپ نے قوم کو ایک بڑی مشکل میں پھنسا دیا ہے۔ آپ ایک ایسی دعوت لے کر آئے، جس نے ہماری جماعت میں تفرقہ ڈال دیا، ان کو بے وقوف بنایا، ان کے معبودوں پر ان کے دین پر عیب لگایا اور ان کے جو آباء و اجداد گزر چکے ہیں ان کو کافر قرار دیا۔

اس لیے آپ میری بات سنیں، میں چند چیزیں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں، تاکہ آپ ان میں سے کسی کو پسند کرلیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ابوالولید کہیئے جو کچھ آپ کو کہنا ہے، میں سن رہا ہوں۔

عتبہ ابوالولید نے کہا کہ اے بھتیجے، آپ نے جو تحریک چلائی ہے اگر اس سے آپ کا مقصد مال جمع کرنا ہے تو ہم وعدہ کرتے ہیں کہ آپ کے لیے اتنا مال جمع کردیں گے کہ آپ ساری قوم سے زیادہ مالدار ہوجائیں۔

اور اگر مقصد اقتدار اور حکومت ہے تو ہم آپ کو تمام قریش کا سردار تسلیم کر لیں گے اور آپ کے حکم کے بغیر کوئی کام نہ کریں گے۔

اور اگر آپ بادشاہت چاہتے ہیں تو ہم آپ کو اپنا بادشاہ تسلیم کرتے ہیں۔

اور اگر یہ صورت ہے کہ آپ کے پاس آنے والا کوئی جن یا شیطان ہے جو آپ کو ان کاموں پر مجبور کرتا ہے اور آپ اس کو دفع کرنے سے عاجز ہیں تو ہم آپ کے لیے ایسے معالج بلوائیں گے جو آپ کو اس تکلیف سے نجات دلادیں۔

اس کے لیے ہم اپنے اموال خرچ کریں گے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ بعض اوقات کوئی جن انسان پر غالب آجاتا ہے جس کا علاج کیا جاتا ہے۔ عتبہ یہ طویل تقریر کرتا رہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سنتے رہے۔

اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ ابوالولید آپ اپنی بات پوری کرچکے؟ اس نے کہا ہاں آپ نے فرمایا کہ اب میری بات سنیئے ۔ عتبہ نے کہا کہ بے شک میں سنوں گا۔

رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے اپنی طرف سے کوئی جواب دینے کے بجائے سورہ فصلت کی تلاوت شروع فرما دی۔

تو عتبہ خاموشی کے ساتھ سننے لگا اور اپنے ہاتھوں کی پیٹھ پیچھے ٹیک لگا لی تاکہ غور سے سن سکے، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سورت کی آیت سجدہ پر پہنچ گئے اور آپ نے سجدہ کیا۔ پھر عتبہ کو خطاب کر کے فرمایا۔

اے ابو الولید۔ تو نے سن لیا، جو کچھ سنا، اب تجھے اختیار ہے جو چاہو کرو۔ عتبہ آپ کی مجلس سے اٹھ کر اپنی مجلس کی طرف چلا تو یہ لوگ دور سے عتبہ کو دیکھ کر آپس میں کہنے لگے کہ خدا کی قسم ابوالولید کا چہرہ بدلا ہوا ہے۔ اب اس کا وہ چہرہ نہیں جس میں یہاں سے گئے تھے۔

جب عتبہ اپنی مجلس میں پہنچا تو لوگوں نے پوچھا کہو ابوالولید کیا خبر لائے۔ عتبہ ابوالولید نے کہا کہ میری خبر یہ ہے کہ میں نے ایسا کلام سنا کہ اللہ کی قسم اس سے پہلے کبھی ایسا کلام نہیں سنا تھا.

اللہ کی قسم نہ تو یہ جادو کا کلام ہے نہ شعر یا کاہنوں کا کلام ہے (جو وہ شیاطین سے حاصل کرتے ہیں)۔

اے میری قوم قریش تم میری بات مانو، اور اس معاملہ کو میرے حوالے کردو، میری رائے یہ ہے کہ تم لوگ ان کے مقابلہ اور ایذاء سے باز آجاؤ اور ان کو ان کے کام پر چھوڑ دو کیونکہ ان کے اس کلام کی ضرور ایک خاص شان ہونیوالی ہے۔

تم ابھی انتظار کرو، باقی عرب لوگوں نے ان کو شکست دیدی تو تمھارا مطلب بغیر تمھاری کسی کوشش کے حاصل ہوگیا, اور اگر وہ عرب پر غالب آگئے تو ان کی حکومت تمھاری حکومت ہوگی، ان کی عزت سے تمھاری عزت ہوگی اور اس وقت تم ان کی کامیابی کے شریک ہوگے۔

اس کے ساتھی قریشیوں نے جب اس کا یہ کلام سنا تو کہنے لگے کہ اے ابوالولید تم پر تو محمدﷺ نے اپنی زبان سے جادو کردیا ہے۔ عتبہ نے کہا کہ میری رائے تو یہی ہے جو کچھ کہہ چکا آگے تمھیں اختیار ہے جو چاہو کرو۔

( معارف القرآن جلد۷ صفحہ۶۲۷،)
✨(سورۂ حٰم السجدہ: آیت۱)​✨

No comments:

Post a Comment

Contact Form

Name

Email *

Message *