Pages

Sunday 22 January 2017

ہزاروں خواہشیں ایسی۔۔۔

1853ء میں قلعہ معلٰے میں ایک مشاعرہ ہوا تھا
مصرح طرح تھا؎

کوئی دشمن نہیں ہے اپنا دشمن آپ ہم نکلے

اس طرح میں غالبؔ کی غزل بہت مشہور ہے؎

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

داغؔ کے پاس مصرع اس رات پہنچا تھا جس رات کو مشاعرہ تھا ۔ چنانچہ انہوں نے غزل کہہ کر دیوان خاص ہی میں استاد ذوقؔ کو دکھائی۔ انہوں نے کہا خاصے شعر ہیں۔ اتنے میں بقولِ داغؔ بادشاہ تشریف لے آئےاور مشاعرہ شروع ہو گیا۔داغؔ نے اپنی باری سے غزل شروع کی۔

داغؔ فرماتے ہیں کہ جب یہ شعر پڑھا؎

ہوۓ مغرور وہ ،جب آہ میری بے اثر دیکھی
کسی کا اس طرح یارب نہ دنیا میں بھرم نکلے

تو یہ سن کر بادشاہ نے اپنے پاس بلایا اور ان کی پیشانی پر بوسہ دیا ۔ اس وقت داغؔ بائیس سال کے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکمل غزل ملاحظہ فرمائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نکال اب تیر سینے سے کہ جان پر الم نکلے
جو یہ نکلے تو دل نکلے جو دل نکلے تو دم نکلے

تمنا وصل کی اک رات میں کیا اے صنم نکلے
قیامت تک یہ نکلے گر نہایت کم سے کم نکلے

خدا ہے حشر کے دن التجا تیری نہ مانوں میں
مرے منہ سے نہیں نکلے ترے منہ سے قسم نکلے

مرے دل سے کوئی پوچھے شب فرقت کی بے تابی
یہی فریاد تھی لب پر کہ یار ب جلد دم نکلے

ہوئے مغرور وہ جب آہ میری بے اثر دیکھی
کسی کا ا س طرح یا رب نہ دنیا میں بھرم نکلے

مبارک ہو یہ گھر غیروں کو تم کو پاسبانوں کو
ہمارا کیا اجارہ ہے نکالا تم نے ہم نکلے

نہ اُٹھے مر کے بھی ایسے ترے کوچے میں ہم بیٹھے
محبت میں اگر نکلے تو ہم ثابت قدم نکلے

نہ گزرا بے خلش یاد مثرہ میں ایک دم ہم کو
کہ ڈوبے نشتر غم دل سے جب خار الم نکلے

رہ ِالفت کو اک سیدھا سا رستہ ہم نے جانا تھا
مگر دیکھا تو اس رستے میں صدہا پیچ و خم نکلے

سمجھ کر رحم دل تم کو دیا تھا ہم نے دل اپنا
مگر تم تو بلا نکلے غضب نکلے ستم نکلے

نہ نکلا دل ہی سینے سے نہ پیکان ہی جدا نکلا
اگر نکلے تو دونوں آشنا ہو کر بہم نکلے

برا ہو اس محبت کا کہ اس نے جان سے کھویا
لگا دل اُس ستمگر سے اجل کا جس سے دم نکلے

د م ِپرسش جو دیکھا اُس بتِ سفاک کومضطر
صفِ محشر سے دل پکڑے ہوئے گھبراکے ہم نکلے

کہیں کیادل میں کیاآیا کہیں کیامنہ سے کیانکلا
کبھی جو چلتے پھرتے ہم سُوِبیت الصنم نکلے

گئے ہیں رنج وغم اے داغؔ بعد مرگ ساتھ اپنے
اگرنکلے تویہ اپنے رفیقانِ عدم نکلے

داغؔ دہلوی

ہماری بستیوں سے امن و چاہت کے عَلم نکلے
تمہاری بستیوں سے جب بھی نکلے ہیں تو بم نکلے

برائی ان دنوں آباد ہے اچھے گھرانوں میں
کہ میخانے سے جتنے لوگ نکلے محترم نکلے

کوئی ایسا نہ تھا کہ جو قصیدہ لکھ سکے میرا
مگر بدنام کرنے کو ہزاروں کے قلم نکلے

جو تیرا غم نکلتا ہے تو میرا دم  نکلتا ہے
کہ میرے دل سے تیرا غم اگر نکلے تو کم نکلے

یہ مکاّروں کی الماری سے مال و زر نکلتے ہیں
ادیبوں کے گھروں سے صرف کاغذ اور قلم نکلے

بہت  سے  منچلے  نکڑ ّ پہ  اسکی راہ تکتے ہیں
اسے کہہ دو کہ وہ گھر سے اگر نکلے تو کم نکلے

جُدا جب سے ہوئے ہو تم تو یہ ہے کیفیت میری
نہ اک پل سانس لوں تنہاؔ نہ آسانی سے دم نکلے

تری محفل میں حق کی بات ہم نے کیا کہی تنہاؔ
"بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے"

✏ثاقب تنہاؔ
مالیگاوں
8446842077

No comments:

Post a Comment

Contact Form

Name

Email *

Message *